احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
انتخاب کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ: ’’وہ بہت سادہ طریق ہے۔ اس میں جو بڑے بڑے علماء ہیں ان کی ایک چھوٹی سی تعداد پوپ کا انتخاب کرتی ہے اور باقی عیسائی دنیا اسے قبول کر لیتی ہے۔‘‘ (تقریر خلیفہ ص۲۲) اس کے مطابق خلیفہ حکم دیتے ہیں کہ: ’’آئندہ یہ نہ رکھا جائے کہ ملتان اور کراچی اور حیدرآباد اور کوئٹہ اور پشاور سب جگہ کے نمائندے جو پانچ سو کی تعداد سے زیادہ ہوتے ہیں۔ وہ آئیں تو انتخاب ہو۔ بلکہ صرف ناظروں اوروکیلوں اور مقررہ اشخاص (یعنی ملازم عملہ) کے مشورہ کے ساتھ اگر وہ حاضر ہوں خلیفہ کا انتخاب ہوگا۔ جس کے بعد جماعت میں اعلان کر دیا جائے گا اور جماعت اس شخص کی بیعت کرے گی۔‘‘ (تقریر خلیفہ ص۲۰) عیسائیوں کے پادری تو شاید صاحب الرائے ہوں۔ مگر خلیفہ تو سراسر اپنے ملازم عملہ اور پالتو مولویوں کو یہ اختیار دے رہے ہیں کہ وہ آیت استخلاف کے تحت خلیفے مقرر کر لیا کرے اور باقی جماعت کو پابند کرتے ہیں کہ وہ اس کی بیعت کرے۔ پس کمیٹی وغیرہ مقرر کرنے کا تو ایک جھانسہ تھا۔خلیفہ کی یہ تقریر لوگوں کو ازبر کروائی جاچکی ہے اور وسیع پیمانے پر اس کے امتحانات لئے جاچکے ہیں اور ہم نے سنا ہے کہ دجل کاری میں اوّل نمبر پر آنے والے مریدوں کو انعامات بھی دئیے گئے ہیں۔ محمودی فتنہ دجالی فتنہ ہے پس جیساکہ ہم شروع میں تحریر کر آئے ہیں۔ یہ فتنہ بھی دجالی فتنہ کی ہی ایک داخلی شاخ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلیفہ کو اپنی خلافت اور خلافت سازی کے قواعد کو مستند بنانے کے لئے باربار پاپائیت کا حوالہ دینا پڑا اور بگڑی ہوئی پاپائیت کو قرآن شریف کا شارح اور قاضی بنانا پڑا اور ’’کل شیٔ یرجع الیٰ اصلہ‘‘ کے اصول کے تحت اس فتنہ کو بھی اپنے مورث اعلیٰ دجال کی طرف رجوع کرنا پڑا اور اس طرح حضرت اقدس کے خوب کی پوری پوری تصدیق ہوگئی کہ محمود دجال کو لے کر میرے گھرمیں داخل ہوگیا ہے۔ دوم… دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی پاپائیت آیت استخلاف کے تحت خلافت الٰہیہ کی آئینہ دار ہے۔ خلیفہ صاحب کہتے ہیں کہ پاپائیت کی موجودہ شکل بگڑی ہوئی ہے۔مگر ہم کہتے ہیں کہ خلیفہ اور ان کے خطاب یافتہ پالتو مولوی پاپائیت کے کسی ایسے دور کی نشان دہی کریں کہ جب کہ وہ آیت استخلاف کے تحت خلافت الٰہیہ کہلانے کی مستحق تھی۔ ہمیں وہ اس دور کے پاپاؤں کا