احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
والے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد ڈاکٹر اسماعیل پنڈی میں مقیم ہوئے۔ چوہدری سر ظفر اﷲ مرحوم سابق وزیر خارجہ پاکستان کے ساتھ گہرے مراسم تھے۔ جب پاکستان میں آتے تو ڈاکٹر کے ساتھ ضرور ملاقات کرتے۔ چوہدری محمد ظفر اﷲ میں دوست نوازی کی بہت عادت تھی۔میجرمحمد یونس نے بتایا ایک دفعہ چوہدری، والد کو ملنے آئے تو مجلس میں یہ قرار پایا۔ جس زبان میں گفتگو کرنا قرار پائی جائے۔ اس کے علاوہ دوسری زبان کا کوئی لفظ استعمال نہ کیا جائے۔ قرار یہ پایا پنجابی میں گفتگو کی جائے۔ چنانچہ میں حیران رہ گیا۔ چوہدری صاحب نے اپنی تمام گفتگو میں پنجابی کے علاوہ کوئی دوسری زبان کا لفظ نہ استعمال کیا۔ جب ہم اس بات سے عاجز آگئے یہ بات اس وجہ سے بیان کی ہے کہ تاکہ قاری کو یہ معلوم ہو جائے۔ یہ واقعات بیان کرنے والے جماعت کے معتبر اشخاص ہیں۔ عجیب بات یہ ہے چوہدری ظفر اﷲ کو یہ بھی علم تھا کہ ڈاکٹر اسماعیل مرزامحمود سے متعلق اچھا ذہن نہیں رکھتے۔ تمہید کچھ طویل ہوگئی ہے۔ یہ واقعہ غالباً ۱۹۵۵ء یا ۱۹۵۶ء کا ہے جس شخص کی بیوی (غالباً عبدالرزاق مہتہ ہے) کے ساتھ یہ واقعہ ہوا اس کا نام بھول گیا ہوں۔ واقعہ یہ ہے مبارک شاہ کا یہ بیان ہے۔ مرزامحمود نے کہاکہ فلاں آدمی ’’خالی‘‘ ہے۔ اس کا کوئی بچہ پیدا نہیں ہوگا۔ مبارک! تیرے نطفہ سے اس کے ہاں بچہ پیدا ہونا چاہئے۔ مبارک شاہ صاحب کہتے ہیں جب وہ شخص دفتر میں جاتا تو میں اس کے گھر داخل ہو جاتا تو مرزامحمود احمد کے حکم کے مطابق اس آدمی کی زوجہ کے بطن سے ایک بچہ پیدا کر دیا۔ اس بچہ کی شکل میری ہی جیسی تھی۔ مرزاطاہر احمد پسر مرزاعبدالحق کا بیان ’’میری شکل دیکھو کیا میری شکل مرزامحمود احمد سے نہیں ملتی۔‘‘ اوپر غیر کے نطفہ سے بچہ پیدا کرنے کا ذکر ہوا ہے۔ مزید دو واقعات پڑھ لیجئے۔ ڈاکٹر محمد احمد حامی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ وہ راجا غالب احمد سابق چیئرمین تعلیمی بورڈ سرگودھا کو ان کے دفتر میں ملنے گیا۔ ادھر ادھر کی گپیں ہورہی تھیں۔ اسی دوران مرزاطاہر احمد پسر عبدالحق ایڈووکیٹ دفتر میں داخل ہوئے تو راجا صاحب نے تعارف کراتے ہوئے کہا۔ حامی! نہیں جانتے یہ کون ہیں۔ حامی صاحب نے جواب دیا نہیں راجا صاحب نے کہا یہ مرزاعبدالحق ایڈووکیٹ کے صاحبزادے ہیں۔ طاہر احمد نے چھٹتے ہی کہا۔ نہیں میں تو مرزامحمود احمد کا بیٹا ہوں۔ حامی کی طرف مخاطب ہوکرکہا۔ کیا تم میری شکل دیکھتے ہو۔ مرزاعبدالحق جیسی ہے یا مرزامحمود احمد سے ملتی ہے۔ حامی صاحب کہتے ہیں یہ الفاظ کہہ کر وہ چلا گیا۔ راجا صاحب نے اپنی نظریں نیچے جھکا دیں اور شرمندہ ہوگئے۔ دل میں یہ کہتے ہوں گے