احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
ہونے کی دلیل اور دوسروں کے واسطے جہنمی ہونے کی دلیل ہے؟ کیا قبل از وقت یہ شائع کرنا کہ براہین میں تین سو بے نظیر دلائل سے اسلام کی افضلیت تمام مذاہب پر ثابت کی گئی ہے۔ سراسر جھوٹ اور جھوٹی شیخی نہیں تھا؟ اے کانے دجالو! کیا ایسے مکاید سے دنیا کو اپنے جال میں پھنسا لینا اور روپیہ ٹھگ لینا۔ تمہارے الٰہی کارخانہ کی عظیم الشان کامیابی کی دلیل ہے؟ کیا سچ ہے کہ ’’دجال کانا ہوگا مگر خدا کانا نہیں۔‘‘ تحریر بالا جو اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔ اس کا جواب بدر مورخہ ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ء میں شائع ہوا ہے جو مرزائیوں کی معقولیت اور شائستگی اور راست بازی کا نمونہ ہے۔ اس لئے لفظ بلفظ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ مرزائی تو کبھی میری تحریر کو اپنے رسالوں اور اخباروں میں شائع نہیں کرتے اور یک طرفہ غل گپاڑہ مارا کرتے ہیں۔ کیونکہ ’’کانے دجال‘‘ ہیں۔ تاکہ اصل بات دبی رہے اور مشرک طبع، انسان پرست، دام افتادوں کی تسلی ہو جائے۔ میں ہمیشہ ان کے اصل الفاظ نقل کر کے اس پر قلم اٹھاتا ہوں تاکہ حق وباطل کا مقابلہ ہو جائے۔ مگر باطل پرستوں میں یہ طاقت کہاں ان کا تو کام ہی خیانت، افتراء اور شور وغوغا سے چلتا ہے۔ وہ تحریر بدر حسب ذیل ہے۔ ڈاکٹر عبدالحکیم خاں مرتد کی دروغ بیانیاں ’’اخویم منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پورہ نے ڈاکٹر مرتد سے خرید کی ہوئی چند ایک کتابیں اسے واپس کی ہیں۔ اس پر خان صاحب یک دفعہ آگ بگولا ہوکر ناپاک طبع لوگوں کی طرح مرزاقادیانی کو گالیاں دینے اور چوہڑے چماروں میں جیسے ناپاک الفاظ بولے جاتے ہیں وہ بولنے لگ پڑے ہیں اور اس گندہ دہانی کے اظہار کے واسطے آپ نے پیسہ اخبار کے پرچے کو برگزیدہ کیا ہے۔ پیسہ اخبار نے بھی غالباً غنیمت سمجھا ہے کہ ہندوؤں کے حق میں منافقانہ مضامین لکھ کر جو وہ اسلامی پبلک کو ناراض کر چکا ہے تو شاید اس کا عوض اس طرح ہو جائے کہ حضرت امامنا (مرزاقادیانی) کے حق میں دشنام دہی کے ساتھ اپنے اخبار کے کالم سیاہ کر کے پھر عوام کالانعام کو فریفتہ بنائے۔ کتابیں تو حبیب الرحمن نے واپس کیں اور ڈاکٹر صاحب نے گالیوں کی بوچھاڑ حضرت (مرزاقادیانی) پر شروع کر دی ہے۔ لیکن یہ تعجب کی بات نہیں۔ کمینے لوگوں میں لڑائی کا ہمیشہ سے یہی دستور چلا آیا ہے کہ جب کسی پر خفا ہوتے ہیں تو اس کے پیر کو گالیاں دیا کرتے ہیں۔ اس مضمون میں ڈاکٹر مرتد نے اوّل سے آخر تک یہ رونا رویا ہے کہ براہین کی قیمت حضرت صاحب نے پیشگی وصول کر لی تھی۔ جس طرح جاہل عیسائیوں نے یہ طرز اختیار کیا ہوا ہے کہ مسئلہ جہاد، غلامی، قصہ زینب وغیرہ کے متعلق ہزاروں دفعہ تسلی بخش جواب دئیے جاچکے ہیں۔ مگر گورے