احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
قادیانی ’’قمر الانبیاء‘‘ کی عتاب کاریاں الفضل مورخہ ۱۹؍ستمبر ۱۹۴۱ء میں قادیانی حضرت ’’قمر الانبیاء‘‘ نے میرے ایک مضمون کا سات ماہ بعد جواب دیا ہے۔ میرے مضمون کو ناپاک لکھا ہے اور حرف اوّل سے لے کر آخر تک درشت کلامی کا سہارا لے کر بات بنانے کی کوشش کی ہے۔ عادت مستمرہ کے مطابق میرے مضمون کا کوئی فقرہ نقل تک نہیں کیا۔ مبادا ’’ناپاک‘‘ ہونے کا الزام طشت ازبام ہوجائے۔ اگر ’’قمر الانبیاء‘‘ کا لہجہ نرم اور مصالحانہ ہوتا تو مجھے نہ صرف حیرت ہوتی بلکہ صدمہ بھی ہوتا۔ کیونکہ اس سے میرا سارا نظریہ باطل ہو جاتا۔ ان کے مضمون کا لب ولہجہ اس آب وہوا کی غمّازی کرتا ہے جس میں انہوں نے گذشتہ نصف صدی تربیت حاصل کی ہے۔ ارباب پیغام صلح اور ان کے زعماء کرام ان کی تلخ نوائی کے خوگر ہوگئے ہیں۔ جب بھی الفضل میں پیغام صلح کے خلاف سب وشتم کا نعرہ بلند ہوا تو ادھر سے جو جواب ملا وہ بقول غالب یہ تھا ؎ کتنے شیریں ہیں تیرے لب کے رقیب گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا پیغام صلح کی اسی درخشندہ روایت کا دامن تھام کر میں ’’قمر الانبیاء‘‘ کی عتاب ناک درشت کلامی کے جواب میں چند معروضات پیش کروں گا۔ ان میں جواب آں غزل کا اندازہ نہیں۔کیونکہ مجھے اس صلب کا احترام مقصود ہے۔ جس سے مکرم مضمون نگار کا تعلق ہے۔ اگرچہ انہوں نے اپنے صلیبی رویّے سے اس مقدس صلب کی تقدیس کو بھی ملحوظ نہیں رکھا۔ ہاں! سخن گسترانہ انداز میں یہ ضرور کہوں گا ؎ شعلوں کا تو کیا ذکرکہ بدنام ہیں شعلے شبنم میں شراروں کی جلن دیکھ رہا ہوں اپنے مضمون میں انہوں نے مجھے کیا سمجھ کر کیا کچھ کہہ ڈالا۔ اس کے متعلق عرض ہے ؎ سخن شناس نہ دلبر اخطا ایں جا است قمر الانبیاء نے خلیفہ اوّل کو محبوب امام تسلیم کیا ہے۔ حالانکہ ۱۹۵۶ء میں اسی مہینے میں انہوں نے خلیفہ اوّل کو اپنے مصلح موعود سے کہتر قرار دیا تھا اور اس کی تصدیق میں قرآن کریم کی آیت: ’’فضلنا بعضہم علیٰ بعض‘‘ نقل کر دی تھی۔ حالانکہ اس آیت کا اشارہ انبیاء کی طرف ہے اور اس میں تقابل کی ممانعت مضمر ہے۔ کیا محبوب امام کے ساتھ یہ سلوک ہونا چاہئے۔ اسی پر بس نہیں کی۔ مکرم مضمون نگارنے خلیفہ اوّل کی اولاد میں سے ایک کو تلقین فرمائی کہ وہ مصلح موعود کی