احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
مرغ بریاں کا شوق ہے ان کو ہیں ملائک خصال جو انساں قورمہ اور پلاؤ کھاتے ہیں لوگ کہتے ہیں جن کو قطب زماں جو ولایت میں ہیں قدم رکھتے ان کی صدقہ پہ ہے فقط گزراں جب حقیقت کھلے بزرگی کی ان کے دیکھے اگر کوئی ساماں ٹھاٹھ ہیں ان کے سب امیرانہ در دولت پہ ہیں کئی درباں رات دن ہیں عمارتیں بنتیں مال کرتے ہیں مفت میں ویراں ناصر اب ختم کر کلام اپنا حق تیری مشکلیں کرے آساں باب نہم قطع وتین مرزائیوں کی یہ دلیل بڑی مایہ ناز ہے اور حسب معمول مرزاقادیانی نے اس کے متعلق بھی اربعین اور دوسری کتابوں میں سخت دجالیت اور کذابی سے کام لیا ہے اور سخت طول کلامی، انشاء پردازی، تکرار اور بے جا تصّرفات سے حق کو دبانا چاہا ہے۔ اس لئے میں پہلے تلخیصاً چند فقرات اربعین سے نقل کر کے اظہار حقیقت کروں گا۔ ’’انہ لقول رسول کریم وما ہو بقول شاعر قلیل ما تؤمنون ولا بقول کاہن قلیلاً ما تذکرون۰ تنزیل من رب العالمین ولو تقول علینا بعض الا قاویل لاخذنہ بالیمین ثم لقطعنا منہ الوتین فما منکم من احد عنہ حاجزین (الحاقہ: جزء:۲۹)‘‘ اور ترجمہ اس کا یہ ہے کہ یہ قرآن کلام رسول کا ہے۔ یعنی وحی کے ذریعہ سے اس کو پہنچا ہے اور یہ شاعر کا کلام نہیں۔ مگر چونکہ تمہیں فراست سے کم حصہ ہے۔ اس لئے تم اس کو پہچانتے نہیں اور یہ کاہن کا کلام نہیں۔ یعنی اس کا کلام نہیں جو جنات سے کچھ تعلق رکھتا ہو۔ مگر تمہیں تدبر اور تذکر کا بہت کم حصہ دیاگیا ہے۔ اس لئے ایسا خیال کرتے ہو۔ تم نہیں سوچتے کہ کاہن کیسی پست اور ذلیل حالت میں ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ رب العالمین کا کلام ہے جو عالم اجسام اور عالم ارواح دونوں کا رب ہے۔ یعنی جیسا کہ وہ تمہارے اجسام کی تربیت کرتا ہے۔ ایسا ہی وہ تمہاری روحوں کی تربیت کرنا چاہتا ہے اور اسی ربوبیت کے تقاضا کی وجہ سے اس نے اس رسول کو بھیجا ہے اور اگر یہ رسول کچھ اپنی طرف سے بنا لیتا اور کہتا کہ فلاں بات خدا نے میرے پر وحی کی ہے۔ حالانکہ وہ کلام اس کا ہوتا، نہ خدا کا، تو ہم اسکا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور پھر اس کی رگ