احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
پر طرہ یہ کہ اس کمیشن کے خالق اور صدر ’’خود قمر الانبیاء‘‘ ہیں۔ جو خلیفہ صاحب کی ہوش کی زندگی میں زجروتوبیخ کا نشانہ بنے رہتے تھے اور ان کی اسباط کے لئے گوناگوں القاب خطبوں میں استعمال ہوتے تھے۔ اب خلیفہ صاحب کی طویل علالت کے صدقے… وہ کرتا دھرتا بنتے جارہے ہیں اور اپنے لئے زمین ہموار کرنے کی خاطر آڑے ترچھے مضمون رقم فرماتے رہتے ہیں تاکہ جماعت ان کے لئے دیدہ براہ اور گوش برآواز ہو جائے۔ دوسروں کا سنگین احتساب بڑا آسان ہے۔ لیکن اس سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ کبھی کبھار اپنے نفس کا محاسبہ بھی ہو تو شاید عتاب کاریوں سے اجتناب کی صورت پیدا ہو سکے۔ لیکن بقول شاعر ؎ کار ذاتی سے ہیں عاجز پاکبازان جہاں اپنے منہ کی گرد پانی آپ دھو سکتا نہیں روشن حقائق کے خلاف الفضل کا دشنام آمیز احتجاج رگ و پے میں جب اترے زہر غم تب دیکھتے کیا ہو ابھی تو تلخیئے کام و دہن کی آزمائش ہے چشم فسوں گر کا اشارہ پاکر ’’الفضل‘‘ نے میرے تفصیلی مضمون کو جو پیغام صلح مورخہ ۴؍اکتوبر ۱۹۶۰ء میں شائع ہوا۔ ’’ایک اور ناپاک مضمون‘‘ قرار دیا ہے۔ عادت مستمرہ کے مطابق اپنے الزام کے اثبات میں میرے مضمون کا ایک لفظ تک نقل نہیں کیا۔ کیونکہ وہ کوئی ایک مکمل فقرہ نقل کرنے کے بعد ناپاک کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ اس کو یہ بھی پورا یقین تھا کہ کسی قادیانی کو ’’پیغام صلح‘‘ والے مضمون کو پڑھنے کی جستجو نہیں ہوگی۔ جو کچھ ’’الفضل‘‘ نے رقم فرمایا ہے وہ اپنے ہونے والے آقائے ولی نعمت کے افکار پریشان کا بے ربط اعادہ ہے۔ معتبر ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ اداریہ بھی میاں بشیراحمد کا رقم فرمودہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں حقائق سے فرار ہے اور دلائل کے فقدان کا تلخ کلامی سے مداوا کیاگیا ہے ؎ اتنا کہاں بہار کی رنگینوں میں جوش شامل کسی کا خون تمنّا ضرور ہے الفضل نے واعظانہ کلوخ اندازی بھی کی ہے۔ اس نے فرمایا ہے: ’’خدا سے ڈرو اور مسیح موعود کے الہاموں کو ہنسی کا نشانہ نہ بناؤ۔‘‘ حالانکہ میرے معروضات کا مفادیہ تھا کہ غیرصالح اطلاق سے حضور کے الہاموں کی تحقیر ہوتی ہے۔ اس احتجاج کو یہ کہہ کر تسلیم کر لیا کہ صاحبزادہ صاحب نے قمر الانبیاء ہونے کا کب دعویٰ کیا تھا۔ گویا اس غلط اطلاق سے جو کئی سالوں سے ہورہا تھا۔ تحاشی کی گئی ہے۔ اگرچہ صاحبزادہ صاحب نے خود اپنے الفاظ میں دستبرداری کا کوئی اعلان نہیں کیا۔ کیونکہ ایک جلسے میں ان کی تقریر