احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
ہے۔ ’’لیس البر‘‘ اس آیت کریمہ کے درمیان تقویٰ کے چند اصول بیان ہوئے ہیں جن میں شاید مرزا کا بھی کہیں ذکر آیا ہو اور دوسری آیت ’’ثم ننجی الذین اتقوا‘‘ ظاہر کرتی ہے کہ مدار نجات تقویٰ لا انتہاء قوانین نجات کے لئے نہیں۔ پھر مرکز نجات کا مسئلہ ہمیں صرف انبیاء کی ذریعہ بھی معلوم ہوسکتا تھا اور دوسرا کوئی طریق نہیں اور دنیا میں نجات بخلاف آپ کی منشاء کے بہت ہی کم لوگوں میں قرآنی ہی نظر آتی ہے۔ آپ اپنا ہی حال دیکھیں بڑی محنتوں کے بعد تو آپ ڈاکٹر مصنف کتب اور صاحب اولاد ہوئے۔ مگر بیبی اور بچوں اور ریاست والوں سے نجات ملی یا نہ ملی۔ آپ کا دل ہی جانتا ہوگا۔ میں اس پہلے حصہ سے ایک حد تک جواب دینے سے سبکدوش ہوا ہوں۔ اگر یہ حصہ آپ کے لئے کچھ بھی مفید ثابت ہوا تو اس کی تفصیل کو بھی تیار ہوں اور باقی حصوں کے جواب دینے کو تیار ہوں گا۔ اگر اس حصہ کے متعلق بھی مجھے یہی سنانا ہو کہ میں دو دھ مانگتا ہوں اور مجھے زہر پلایا جاتا ہے اور میں قریب ہوتاہوں اور مجھے دور کیا جاتا ہے اور میں اپنا بنتا ہوں اور مجھے اجنبی کہا جاتا ہے تو میں مصلحت نہیں سمجھتاکہ باقی حصوں کا جواب دوں یا اس کو اور زیادہ کروں۔ اگر امام صاحب کے حضور شوخی کرنے سے پہلے مجھے براہ راست آپ خط وکتابت کرتے تو مجھے بہت پیارے الفاظ بولنے کا موقعہ ملتا۔ مگر محبوب پر سخت کلامی کو ایک لخت فطرتاً پسند نہیں کر سکتا اور وہ بھی ہے۔ پھر خدا کی لاانتہاء قوانین مغفرت بھی موجود ہیں۔ اس سے میں یقین کرتا ہوں کہ میرا کوئی لفظ بھی ایسا نہ ہوگا جو میرے لئے نجات کا محروم کرنے والا ہو۔ قرآن کریم سے الگ ہوکر آپ بہت سے قوانین ایجاد کر سکتے ہیں۔ مگر قرآن کے ماتحت ہوکر ایسا کرنا آپ کے لئے محال ہے۔ قرآن ایک مفصل کتاب ہے۔ اگر ایک شخص کو ایک مقام پر کوئی آیت متشابہ معلوم ہوتو اس کے لئے اور بہت سے محکمات موجود ہیں جوام الکتاب کا کام دے سکتے ہیں۔ نورالدین مورخہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۶ء! خط نمبر:۱۱ ڈاکٹر عبدالحکیم خان بنام نورالدین ۱… سبحان اﷲ عجیب منطق ہے۔ کیا قرآن مجید میں آیات ذیل نہیں ہیں۔ ’’سلام قولا من رب الرحیم۰ واذ احییتم بتحیۃ فحیّوا باحسن منہ اوردوہا واذ جاء ک الذین یؤمنون بآیتنا فقل سلام علیکم‘‘ آپ نے تو میرے لفظ مدار نجات کو گول مول بتایا ہے۔ مگر آپ کا سارا خط ہی گول مول ہے۔ میں نے تو ہر امر کے ثبوت میں آیات بینات پیش کیں۔ آپ کی طرف سے ان کا جواب ندارد۔ بلکہ ان کو میرا قول قرار دے کر تردید شروع کر دی ؎