احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
M ’’نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم‘‘ الذکر الحکیم نمبر:۵ (المسیح الدجال) پہلے میرا یہ عقیدہ تھا کہ مسیح علیہ السلام جو رسول تھے فوت ہوچکے اور آنے والے مسیح مرزاغلام احمد قادیانی ہیں جو آچکے۔ عرصہ پچیس سال تک میرا یہی ایمان رہا اور بڑی ارادات کے ساتھ میں مرزاقادیانی کا مرید رہا۔ ان کے عیب اور خطاؤں کو بشری کمزوریوں پر محمول کرتا رہا۔ عالم قرآن اور مزکی خلق ہونے کی نسبت خالی دعویٰ سنتا رہا۔ مگر نہ کبھی کوئی قرآنی مشکل ہی ان کی طرف سے حل ہوئی نہ کوئی نکتہ معرفت ایسا سنا جو مجھے اپنے طور معلوم نہ ہوا ہو۔ نہ ان کی صحبت میں تزکیہ نفس اور رجع الیٰ اﷲ کی خاص تاثیر دیکھی جو غیبت میں میسر نہ آئی ہو۔ پھر بھی حسن عقیدت کے طور پر قریباً بیس روپیہ ماہوار سے حتی الامکان ان کے لنگر، سکول، اخبارات اور کتب وغیرہ کی امداد کرتا رہا۔ اردو، انگریزی تفاسیر اور تذکرۃ القرآن ہزاروں روپیہ کے صرف سے ان کی تائید میں شائع کرتا رہا۔ حسن عقیدت کے غلبہ نے کبھی سوچنے نہ دیا۔ ذکر مرزاکی وجہ سے عام مسلمان میری تفاسیر اور دینی رسائل سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ اکثر مصنف مذاق اور غیر متعصب اشخاص نے جو میری دینی تصانیف کو پڑھا ان سے بہت مستفید اور محظوظ ہوئے اورمیرے نام لکھتے رہے کہ مرزا کے متعلق جو مضامین ان تفاسیر میں ہیں آپ ان کو نکال دیجئے تاکہ عام مسلمان اس سے مستفید ہوسکیں۔ مگر میں نے ان کی تحریروں پر کچھ خیال نہ کیا۔ ’’کل امر مرہون باوقاتہا‘‘ آخر کار جماعت کثیر ہو جانے کی وجہ سے جب مرزاقادیانی کی مشیخت اور کبریائی حد سے بڑھتی گئی اور ان کی جماعت میں تمام اسلام پر مرزاپرستی غالب ہوگئی۔ خداوند عالم اور تمام انبیاء کا استہزاء ہونے لگا۔ تب میںنے تعطیلات محرم وہولی میں مرزائیوں کو بمقام پٹیالہ چند ضروری مضامین پر لیکچر دینے شروع کئے اور ابتداء اسماء الٰہی، دلائل برہستی باری تعالیٰ اور تفسیر الحمد سے کی۔ کیونکہ جماعت احمدی میں خاص مرزاقادیانی کے اذکار کا جوش ایسا غالب ہوگیا کہ تسبیح وتقدیس اور تحمید باری تعالیٰ قریب قریب مفقود ہوگئے۔ یا محض برائے نام رسمی طور پر رہ گئے اور سوائے اس ایک مسئلہ کے اور تمام قرآنی تعلیموں کا چرچا جاتا رہا اور اس ایک ہی مسئلہ کا مذاق رہ گیا ہے۔ گویا پرستش باری تعالیٰ کی بجائے مرزاقادیانی کی پرستش قائم ہوگئی اور عملی طور پر ان کا کلمہ ’’لا الہ الاالمرزا‘‘ ہوگیا۔ کیونکہ الہ یعنی معبود ومطلوب وہی ہے جس کی سب سے زیادہ طلب کی جائے اور جس کی سب سے زیادہ