احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
یہ ہے مجبور مریدوں کی ارادت کا خمار یہ جو آنکھوں میں جلا میں کہاں آ نکلا قلب مؤمن پہ سیاہی کی تہیں اتنی دبیز ناطقہ سہم گیا ہے میں کہاں آ نکلا الغرض یہ وہ تماشا ہے جہاں خوف خدا چوکڑی بھول گیا ہے میں کہاں آ نکلا مولوی عبدالستار نیازی اور دیوان سنگھ مفتون مولانا عبدالستار صاحب نیازی کی شخصیت محتاج تعارف نہیں، بلکہ خود تعارف ان کا محتاج ہے۔ مذہبی ودینی علوم کے علاوہ سیاسی نشیب وفراز پر جس طرح وہ نظر رکھتے ہیں اور جس جرأت اور بے باکی سے باطل کو للکارتے ہیں، یہ انہی کا حصہ ہے۔ مولانا موصوف نے مؤلف اور امیرالدین صاحب سیمنٹ بلڈنگ تھارنٹن روڈ لاہور کے سامنے بیان کیا ہے کہ: ’’ایوب حکومت میں جب دیوان سنگھ مفتون پاکستان آئے تو مجھے ملنے کے لئے بھی تشریف لائے۔ دوران گفتگو انہوں نے بڑی حیرانگی سے کہا میں عرصہ دراز کے بعد ربوہ میں مرزامحمود سے ملا ہوں۔ خیال تھا کہ وہ کام کی بات کریں گے۔ مگر میں جتنا عرصہ وہاں بیٹھا رہا۔ وہ یہی کہتے رہے کہ فلاں لڑکی سے تعلقات استوار کئے تو اتنا مزہ آیا، فلاں سے کیے تو اتنا۔‘‘ مرزامحمود احمد کی ایک بیوی کا خط دیوان سنگھ مفتون کے نام حکیم عبدالوہاب عمر بیان کرتے ہیں کہ مرزامحمود خلیفہ ربوہ کی ایک بیوی نے ایک مرتبہ ایڈیٹر ’’ریاست‘‘ سردار دیوان سنگھ مفتون کو خط لکھا کہ تم راجوں مہاراجوں کے خلاف لکھتے ہو، ہمیں بھی اس ظالم کے تشدد سے نجات دلاؤ جو ہمیں بدکاری پر مجبور کرتا ہے۔ ایڈیٹر مذکور نے ظفر اﷲ خاں وغیرہ قادیانیوں سے تعلق کی وجہ سے کوئی جرأت مندانہ اقدام تو نہ کیا۔ البتہ ’’ریاست‘‘ میں خلیفہ جی کی معزولی کے بارہ میں ایک نوٹ تحریر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ جس شخص پر اہل خانہ تک جنسی بے راہروی کے الزامات لگا رہے ہوں، اسے اس قسم کے عہدہ سے چمٹا رہنا سخت ناعاقبت اندیشانہ فعل ہے۔ قادیانی ’’رائل پارک فیملی‘‘ کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ بیوی مولوی نورالدین جانشین اوّل جماعت قادیان کی صاحبزادی امتہ الحی بیگم تھیں۔ راجہ بشیر احمد رازی کی تجرباتی داستان راجہ بشیر احمد رازی حال مشن روڈ بالمقابل ناز سینما لاہور، راجہ علی محمد صاحب کے صاحبزادے ہیں۔ جو ایک عرصہ جماعت ہائے احمدیہ گجرات کے امیر رہے۔ ۱۹۴۵ء میں زندگی