احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
وقف کرنے کے بعد ربوہ چلے گئے اور صدر انجمن احمدیہ ربوہ میں نائب ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اسی دوران ان کے تعلقات شیخ نورالحق ’’احمدیہ سنڈیکیٹ‘‘ اور ڈاکٹر نذیر احمد ریاض سے ہوگئے جو مرزامحمود احمد کی خلوتوں سے پوری طرح آشنا تھے۔ راجہ صاحب ایک قادیانی گھرانے میں پلے تھے۔ اس لئے متعدد مرتبہ سننے کے باوجود انہیں اس بات کا یقین نہیں آتا تھا کہ یہ سب کچھ قصر خلافت میں ہوتا ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر نذیر ریاض صاحب سے کہا کہ میں تو اس وقت تک تمہاری باتوں کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔ جب تک خود اس ساری صورتحال کودیکھ نہ لوں۔ ڈاکٹر صاحب مذکور نے ان سے پختہ عہد لینے کے بعد ان کو بتایا کہ محاسب کا گھڑیال ہمارے لئے سٹینڈرڈ ٹائم کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب اس پر ۹بجیں تو آجانا۔ مقررہ وقت پر راجہ صاحب ڈاکٹر نذیر کی معیت میں قصر خلافت پہنچے تو خلاف توقع دروازہ کھلا تھا۔ راجہ صاحب کچھ ٹھٹکے کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ کہیں ڈاکٹر سچ ہی نہ کہہ رہا ہو۔ پھر انہیں یہ بھی خیال آیاکہ کہیں انہیں قتل کروانے یا پٹوانے کا تو کوئی پروگرام نہیں۔ مگر انہوں نے حوصلہ نہ چھوڑا اور ڈاکٹر نذیر کے پیچھے زینے طے کرتے گئے۔ جب اوپر پہنچے تو ڈاکٹر نے انہیں ایک کمرہ میں جانے کا اشارہ کیا اور خود کسی اور کمرہ میں چلے گئے۔ راجہ صاحب نے پردہ ہٹا کر دروازے کے اندر قدم رکھا تو عطر کی لپٹوں نے انہیں مسحور کر دیا اور انہوں نے دیکھا کہ چھوٹی مریم آراستہ وپیراستہ بیٹھی ہے اور انگریزی کے ایک مشہور جنسی ناول ’’فینی ہل‘‘ کا مطالعہ کر رہی ہے۔ راجہ صاحب کہتے ہیں کہ: ’’یہ منظر دیکھ کرمیرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور میری سوچ کے دھاروں میں تلاطم برپا ہوگیا۔ میں نے چشم تصور سے اپنے والد محترم کو دیکھا اور کہا تم اس کام کے لئے چندہ دیتے رہے ہو۔ پھر مجھے اپنی والدہ محترمہ کاخیال آیا جو انڈے بیچ کر بھی چندہ کے طور پر ربوہ بھجوا دیا کرتی تھیں۔ اسی حالت میں آگے بڑھا اور پلنگ پر بیٹھ گیا۔ وہاں تو دعوت عام تھی، مگر میں سعی لاحاصل میں مصروف تھا اور مجھے ڈاکٹر اقبال کا یہ مصرعہ یاد آرہا تھا ؎ یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا اصل میں مجھے اس قدر Shock ہوا تھا کہ میں کسی قابل ہی نہ رہا تھا۔ اس لئے میں نے بہانہ کیا کہ میں کھانا کھا کر آیا ہوں۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ مجھے یہ فریضہ سرانجام دینا ہے اور اگر شکم سیری کی حالت میں، میں یہ کام کروں تومجھے اپنڈیکس کی تکلیف ہو جاتی ہے۔ اس طرح معرکہ اولیٰ میں ناکام واپس لوٹا اور آتے ہوئے مریم نے مجھے کہا: ’’کل اکیلے ہی آجانا، یہ ڈاکٹر نذیر بڑا بدنام آدمی ہے، اس کے ساتھ نہ آنا۔‘‘ دوسرے دن ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہ