احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
کو پناہ حاصل کرنے کے لئے ایک نئے قلعے کی ضرورت تھی۔ مرید تو پہلے ہی افراد عقیدت سے اندھے تھے۔ پالتو مولویوں کی پلٹنیں موجود تھیں۔ اخبار اور پریس صرف ایک اشارہ کے منتظر تھے۔ غریبوں سے جمع کئے ہوئے چندوں کے انبار لگے ہوئے تھے اور خلیفہ بھی یورپ کے شاہانہ ہوٹلوں کا طوفانی دورہ فرما کر تازہ دم ہوچکے تھے۔ سوچا کہ لوگ ہمارے پرانے عقائد کی الجھنوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور ہمارے چکنا چور عقائد کے انبار پر سے فی الحال اگرچہ، مگرچہ، چونکہ، چنانچہ کے فرسودہ پردے اٹھا رہے ہیں۔ کیوں نہ ہم عقیدت کے بندوں کو ایک نیا جل دیویں۔ ظاہر ہے کہ خلیفہ کا سارا تانا بانا ہی بکھر چکا تھا اور وہ بہت زیادہ فکر مند تھے اور ایک عرصہ سے ایک گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ آخرکار جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء کا موقع آیا اور خلیفہ نے آیت استخلاف کے تحت خلیفہ ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ نہ صرف یہ کہ خود آیت استخلاف کے تحت خلیفہ ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ بلکہ قیامت تک کے لئے آیت استخلاف کے تحت خلافت سازی کے قواعد وضوابط بھی بنا کر پیش کر ڈالے۔ شیطان سجدے میں اور پھر اس خلافت کو گھر کی لونڈی یا بنانے کے لئے ابنائے فارس کی توحید پرستی پر بھی وعظ فرمایا اور بظاہر خلیفہ اوّل کی اولاد کو نشانہ بنا کر درپردہ خلیفہ پر اجارہ داری حاصل کرنے کی ایسی چال چلی کہ ابلیس بھی شکرانے کے طور پر اس دن سجدے میں گر گیا ہوگا۔ ہم حیران ہیں کہ الہام ’’خذو التوحید التوحید یا ابناء الفارس‘‘ (تذکرہ ص۲۷۸) میں یہ ضمانت کہاں ہے کہ اب ابنائے فارس تاقیامت توحید پرست اور نیکو کار رہیں گے اور اس سے یہ نتیجہ کیوں کر نکل آیا کہ ابنائے فارس سے خداتعالیٰ کا کوئی خاص لگاؤ اور تعلق ہے۔ مرزامحمود شیطان جو شخص ’’نحن ابناء اﷲ‘‘ اور ’’نحن ابناء الفارس‘‘ کا قائل ہے۔ وہ تو مکتب توحید میں داخل کئے جانے کے لائق ہی نہیں اور ’’انا خیر منہ‘‘ کا نعرہ شیطانی ہے۔ لہٰذا جو شخص اس قسم کا نعرہ بلند کرتا ہے۔ وہ بلاشبہ شیطان الرجیم ہے اور اس کی گمراہی سے بچنے کے لئے اس کی شناخت ازبس ضروری ہے۔ پس ہمارے نزدیک خلیفہ کی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء بعنوان ’’خلافت حقہ اسلامیہ‘‘ ایک ایسا دجل ہے جس کی مثال ملنی محال ہے۔ پھر اس دجل کاری کو مریدوں کو ذہن نشین کرانے کاخاص اہتمام کیاگیا۔ پالتو مولویوں کو حکم دیا گیا کہ وہ لوگوں کو یہ تقریر