احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
ڈاکٹر نذیر احمد ریاض کا خط اپنے ایک دوست کے نام آپ کو یاد ہوگا کہ جب تک ہم ربوہ میں رہے، ہماری آپس میں کچھ ایسی قلبی مجالست رہی کہ باہم مل کر طبیعت بے حد خوش ہوتی تھی۔ کبھی شعروشاعری کے سلسلہ میں، توکبھی مخلص کے مصنوعی تقدس پر نکتہ چینی کرنے میں بڑا لطف آتا تھا۔ دراصل خلیفہ کا اصول ہے کہ ؎ مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں انہیں پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں انہیں اور خود خوب رنگ رلیاں مناؤ، عیش وعشرت میں زندگی بسر کرو۔ ہم نے تو بھائی خلوص دل سے وقف کیا تھا۔ خدا ہمیں ضرور اس کا اجر دے گا۔ انہیں یہ خلوص پسند نہ آیا۔ اﷲتعالیٰ بہتر حکم وعدل ہے۔ خود فیصلہ کر دے گا کہ ٹھکرائے ہوئے ہیرے کتنے عزیز تھے۔ شروع شروع میں میرے دل کی عجیب کیفیت تھی۔ ہر وقت دل مختلف افکار کی آماجگاہ بنارہتا تھا۔ ماں باپ کی یاد، عزیزوں کی جدائی کا احساس، دوستوں کے بچھڑنے کا غم اور حاسدوں کے تیروں کی چبھن سبھی کچھ تھا۔ لیکن ؎ ہر داغ تھا اس دل میں بجز داغ ندامت سب سے بڑا معلم انسان کی فطرت صحیحہ ہے۔ جس کی روشنی میں انسان اپنے قدموں کو استوار رکھتا ہے اور ہر افتاد پر ڈگمگانے سے بچاتا ہے۔ اگر یہ کلی طور پر مسخ ہو جائے تو پھر کسی بے راہ روی کا احساس دل میں نہیں رہتا۔ اﷲتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی رضاکی راہوں پر چلائے۔ آمین! آپ کا ریاض! جناب غلام حسین صاحب احمدی فرماتے ہیں۔ میں نے اپنی شہادت کے علاوہ حبیب احمد کا بھی ذکر کیا تھا۔ وہ مجھے قادیان میں مل گئے۔ میں نے ان سے قسم دے کر دریافت کیاتو انہوں نے قسم کھا کر مجھے بتلایا کہ حضرت صاحب (مرزامحمود احمد) نے دو مرتبہ ان سے لواطت کی ہے۔ ایک دفعہ قصر خلافت میں، دوسری دفعہ ڈلہوزی میں، میں نے اس سے تحریری شہادت مانگی تو پوری تفصیل کے ساتھ نہیں لکھی۔ بلکہ نامکمل لکھ کر دی۔ حبیب احمد صاحب اعجاز اس کی پوری پوری تصدیق فرمارہے ہیں، جو درج ذیل ہے۔ بسم اﷲ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصی علیٰ رسولہ الکریم! وعلیٰ عبدہ المسیح الموعود بخدمت شریف جناب بھائی غلام حسین صاحب، السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ کے بعد