احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
مصلح الدین سعدی کی دوسری شہادت ’’مبینہ طور پر خلوت سیہ (خلوت صحیحہ ناقل) کے وقت قرآن کریم کو پاس رکھنے والا بھی خدا کی گرفت سے بچ جائے تو اﷲتعالیٰ کے عظیم صبر بخشنے کے بعد ہی اس کی سیاہ کاریوں کے وسیع وعریض رقبے کو جاننے والا اپنے ایمان کی دولت کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔ جب یہ شخص اپنے باپ کو بھی نہیں بخشتا تو یہ کیا نہ کرتا ہوگا۔‘‘ مؤلف ’’فتنہ انکار ختم نبوت‘‘ سے ان الفاظ کی وضاحت چاہی گئی تو انہوں نے کہا کہ: ’’مصلح الدین سعدی نے مؤکد بعذاب قسم کھا کرمجھے بتایا کہ ایک دن، میں مرزامحمود کی ہدایت پر ایک لڑکی کے ساتھ داد عیش دے رہا تھا کہ وہ آیا۔ اس نے لڑکی کے سرینوں کے نیچے سے قرآن پاک نکالا۔‘‘ (استغفراﷲ) چوہدری محمد نصراﷲ ابن چوہدری عبداﷲ بھتیجا چوہدری ظفر اﷲ سابق وزیر خارجہ پاکستان کی شادی کا قصہ نواب شاہ صاحب کی شادی کا ذکر کیا ہے۔ ایک اور خوبصورت جوان محمد نصراﷲ کی شادی کا قصہ بھی لکھ دیتا ہوں۔ جس سے مرزامحمود احمد کے خاندان کی گندگی کا نقشہ قارئین کے سامنے آجائے گا۔ چوہدری محمدنصراﷲ کی والدہ چوہدری فتح محمد سیال کی بیٹی آمنہ تھیں۔ چوہدری فتح محمد سیاسی زمیندار گھرانے کے چشم وچراغ تھے۔ ایم۔اے (انگلش) تھے۔ انگلستان میں جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے مشنری بھی رہ چکے تھے۔ تقسیم ہند کے وقت گورداسپور سے آزاد ایم۔پی۔اے بھی منتخب ہوئے۔ سیال صاحب محمد نصراﷲ کے رشتے میں نانا لگے۔ گویا محمد نصراﷲ نجیب الطرفین تھے اور جماعت احمدیہ قادیان میں یہ دونوں بڑے گھرانے تھے۔ آمنہ صاحبہ کی بڑی خواہش تھی کہ ان کے کسی بیٹے کی شادی مرزامحمود احمد کے گھرانے میں ہو جائے تاکہ احمدی لوگوں کی نظر میں ان کا مقام مزید بڑھ جائے۔ بہرحال آمنہ صاحب کی کوششوں سے محمد نصراﷲ کی منگنی مرزامحمود کے گھرانے میں ہوگئی۔ تاریخ مقرر ہوگئی۔ ذراخیال کیجئے۔ جماعت کے دو بڑے گھرانوں کے چشم وچراغ کی شادی اور مرزامحمود احمد کے گھر کی دلہن، کسی قسم کے بڑے لوگوں کی بارات ہوگی۔ اسی بارات میں چوہدری ظفر اﷲ اور ان کے بھائی چوہدری اسد اﷲ خان بارایٹ لاء بھی شامل تھے۔ جب لاہور سے بارات روانہ ہونے لگی تو غیور نوجوان، چوہدری محمد نصراﷲ نے اہلخانہ سے کہا کہ آپ لوگ چلیں میں آپ کے پیچھے اپنے ایک دوست کولے کر آجاؤں گا۔ تمام