احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
خاں ۳۳۵ اے پیپلز کالونی فیصل آبادکا حلفیہ بیان ہے کہ اس کمیٹی کے ایک رکن مولوی محمد علی لاہور سے انہوں نے اس بارہ میں استفسار کیا تو مولوی صاحب نے بتایاکہ الزام تو ثابت ہوچکا تھا۔ مگر ہم نے ملزم کو Benefit of Doubt دے کر چھوڑ دیا۔ مباہلہ والوں کی للکار مولوی عبدالکریم مرحوم اور میاں زاہد ’’مباہلے والے‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ ان مجاہدین نے ۱۹۲۷ء میں اپنی ہمشیرہ سکینہ بیگم پر مرزامحمود کی دست درازی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ قادیانی غنڈوں نے ان کے مکان کو نذرآتش کر دیا اور جناب میاں زاہدکے اپنے بیان کے مطابق اگر مولانا حکیم نورالدین کی اہلیہ صغریٰ بیگم محترمہ ان کو بروقت خبردار نہ کردیتیں تو وہ سب اسی رات قادیانیوں کے ہاتھوں راہی عدم ہوچکے ہوتے۔ انہوں نے مرزامحمود کے کذب وافتراء کا جواب دینے کے لئے ’’مباہلہ‘‘ نامی اخبار جاری کیا۔ جس کی پیشانی پر یہ شعر درج ہوتا تھا ؎ خون اسرائیل آ جاتا ہے آخر جوش میں توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ طلسم سامری یہ مظلوم خاتون قادیانی فرقہ کے صوبائی امیر مرزاعبدالحق ایڈووکیٹ سرگودھا کی اہلیہ تھیں۔ وہ اپنے مشاہدہ اور تجربہ کی بناء پر عمر بھر مرزامحمود کو بدکار سمجھتی رہیں۔ یہ سانحہ اس طرح ظہور میں آیا کہ وہ قادیان میں کسی کام کی خاطر ’’قصر خلافت‘‘ میں گئیں۔ مرزامحمود نے جبراً ان کے ساتھ زیادتی کا ارتکاب کیا۔ انہوں نے واپس آکرسارا معاملہ اپنے شوہر کے گوش گزار کر دیا۔ مرزاعبدالحق، خلیفہ کے پاس پہنچا تو کہا کہ سکینہ یہ بات کہتی ہے اس نے بڑی ’’معصومیت‘‘ سے کہا: مجھے خود اس معاملہ کی سمجھ نہیں آرہی۔ سکینہ بیگم بڑی نیک اور پاکباز لڑکی ہے۔ اس نے ایسی حرکت کیوں کی ہے۔ میں دعا کروں گا، آپ کل فلاں وقت تشریف لائیں۔ جب مرزاعبدالحق دوسرے دن پہنچا تو خلیفہ مرزامحمودنے کہا: میں نے اس معاملہ پر بہت غور کیا ہے۔ دعا بھی کی ہے۔ ایک بات سمجھ میں آئی ہے کہ: ’’چونکہ میں خلیفہ ہوں، مصلح موعود ہوں، اس لئے سکینہ بیگم ایک روحانی تعلق کی بناء پر مجھ سے محبت رکھتی ہے اور اس قسم کا جذبہ الفت جب پوری طرح قلب وذہن پر مستولی ہوجاتا ہے تو اس وقت بعض عورتیں عالم تخیل میں دیکھتی ہیں کہ انہوں نے فلاں مرد سے ایسا تعلق قائم کیا ہے اور اس خیال کا استیلاء وغلبہ ان پر اس قدر ہوتا ہے کہ وہ اس کو بیداری کا واقعہ سمجھ لیتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مرزامحمودنے طب کی ایک کتاب نکال کر دکھا دی کہ دیکھ لو اطّباء نے بھی اس مرض کا ذکرکیا ہے۔ اس پر مرید مطمئن ہوکر گھر واپس آیا تو اہلیہ کے استفسار کرنے پر مرید خاوند