احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
(نوٹ: یہ مکمل واقعہ احتساب قادیانیت ج۵۸ میں تاریخ محمودیت کے عنوان سے درج ہے۔ اس لئے یہاں سے خارج کر دیا ہے۔ مرتب!) مرزامحمود اور مس روفو مرزامحمود جنس کے میدان وغا میں نت نئے تجربات کرتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ لاہور سسل ہوٹل میں آئے تو وہاں کی نوجوان اطالوی منتظمہ مس روفو کو دل دے بیٹھے اور پھر بہلا پھسلا کر اسے قادیان لے گئے۔ لاہور تو خبروں کا شہر ہے۔ بات نکلی تو مولانا ظفر علی خاں مرحوم تک پہنچ گئی۔ انہوں نے فوراً ایک نظم کہہ دی اور اگلی صبح اس کا ہر شعر لوگوں کی زبان پر تھا۔ بات بنتی نظر نہ آئی تو مرزامحمود نے حسب روایت بہانہ بنایا کہ میں اسے اپنی بیوی اور لڑکیوں کے انگریزی لہجہ کے لئے لایا تھا۔ (الفضل مورخہ ۱۸؍مارچ ۱۹۳۴ء) اس پر اخبارات نے لکھاکہ اطالوی توخود انگریزی کے بعض الفاظ صحیح طور پر نہیں بول سکتے۔ پھر ایک رقاصہ لڑکی کو گورنس کے طور پر رکھنا کون سی دانشمندی کی علامت ہے؟ اس پر قادیانی امت کے راسپوٹین کے لئے کوئی جائے فرار نہ رہی اور اس نے مس روفو کو اپنے محرم راز ڈرائیور (تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ ڈرائیور نذیر تھا) کے ہمراہ پانچ ہزار روپیہ دے کر واپس بھیج دیا۔ قادیان میں مس روفو تجربات کی جس بھٹی سے گزری، وہ اس قدر لرزہ خیز نوعیت کے تھے کہ اس نے آتے ہی ایک وکیل کو مرزامحمود کے خلاف کیس دائر کرنے کے لئے کہا کہ وہ اس کے ساتھ اپنی بیٹی کو سامنے بٹھاکر بدکاری کرتا رہا۔ (ملخص از کمالات محمودیہ وفتنہ انکار ختم نبوت) وکیل نے اس کا کیس لینے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ یہ کوئی معمولی گناہ نہ تھا۔ یہاں تو افشائے راز کا تحفظ بھی معصیت سے کیاگیا تھا۔ میں نے کئی باخبر لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ وکیل کون تھے تو انہوں نے بتایا کہ وہ سابق چیف جسٹس محمد منیر تھے۔ جو اس وقت وکالت کی پریکٹس کیا کرتے تھے۔ واﷲ اعلم! اب آپ مولانا ظفر علی کی وہ نظم مطالعہ فرمائیں جو نہ صرف ادبی وفنی اعتبار سے ایک شاہکار ہے۔ بلکہ اس میں قادیانی نبوت وخلافت کی بھی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی گئی ہیں۔ اطالوی حسینہ از نقّاش! اے کشور اطالیہ کے باغ کی بہار لاہورکا دامن ہے تیرے فیض سے چمن پیغمبر جمال تیری چلبلی ادا پروردگار عشق تیرا دل ربا چلن