احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
جب کہ ۱۹۷۱ء میں میں نے خود مرزاوسیم کی تقریر ریڈیو پر خود بھی سنی جو کہ بھارت کے حق میں تھی۔ یہ بھی صحیح ہے کہ مرزاوسیم انتظامی امور کی رو سے ربوہ کے تحت ہیں اور کوئی تقریر ربوہ والوں کی مرضی ومنشاء کے بغیر نہیں کر سکتے۔ اسرائیل کا مشن بھی اسی طرح اسرائیلی حکومت کا ساتھ دیتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ۱۹۶۷ء میں ربوہ کی عبادت گاہوں میں شرینی تقسیم کی گئی تھی۔ اس کی وجہ اسرائیل کا ۱۹۶۷ء کی جنگ میں عربوں کے مقابلہ میں کامیابی حاصل کرنا تھا۔ یہ بھی صحیح ہے کہ قصر خلافت ربوہ کے سٹیشن ماسٹر مرزا عبدالسمیع کو جانتا ہوں۔ ہر احمدی کی طرح مرزا سمیع بھی نظارت کا ایک حصہ تھے۔ تمام احمدیوں کا تعلق امور عامہ سے ہوتا ہے۔ سرکاری ملازمت کرنے والے احمدی اپنے اپنے محکمہ کی سرگرمیوں کے بارے میں امور عامہ کو اطلاع دیتے ہیں۔ جماعت احمدیہ لاہور کا اخبار ’’لاہور‘‘ ہے۔ ثاقب زیروی اس کے ایڈیٹر ہیں۔ اس پرچہ میں شاہ فیصل اور کرنل قذافی کے خلاف مضامین چھپتے رہے۔ میں احمدیہ تبلیغی مشن یوگنڈا کے انچارج حکیم ابراہیم کو جانتا ہوں۔ وہ پاکستان بھی آئے تھے۔ ایسے لوگوں کو پریس میں کوئی بات دینا منع ہے۔ کیونکہ خلیفہ کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔ حکیم ابراہیم کا گھر ربوہ میں ہے۔ گواہ کو اس مرحلہ پر ایک انگوٹھی دکھائی گئی۔ جس کے بارہ میں اس نے کہا کہ ایسی انگوٹھیاں عموماً ہر قادیانی پہنتا ہے۔ یہ خاص شناخت کے اعتبار سے پہنی جاتی ہے۔ قادیانیوں کا سب سے بڑا تبلیغی مرکز برطانیہ ہے۔ وقوعہ ربوہ کے بعد قصر خلافت میں ایک اجلاس بلوایا گیا۔ جس میں ۷۰۰/۶۰۰؍ افراد موجود تھے۔ یہ اجلاس اپنی مرضی کے آدمیوں کو گرفتار کرانے کے لئے بلایا گیا۔ گواہ نمبر۳۳، ثناء اﷲ ٹھیکیدار سرگودھا میں احمدی نہیں ہوں۔ ربوہ میں میں نے ایک پہاڑی کان کا ٹھیکہ ۱۹۶۶ء میں حاصل کیا تھا۔ وقوعہ کے روز میں سرگودھا سے ربوہ کے لئے چناب ایکسپریس میں آرہا تھا۔ منصور احمد میرے ڈبہ میں بیٹھا تھا۔ ظہور، مسعود اور گلزار ہر سٹیشن پر اترتے تھے اور ڈبوں کے آگے پھر کر سوار ہو جاتے تھے۔ انہیں عموماً مرزائی کہا جاتا ہے۔ میرے ڈبہ میں صرف منصور بیٹھا رہا۔ باقی تین کو صرف میں سٹیشنوں پر دیکھ لیتا تھا۔ منصور لالیاں ریلوے اسٹیشن پر اتر گیا۔ جب ربوہ اسٹیشن آنے لگا اور گاڑی بیرونی سگنل کے قریب پہنچی تو میں بھی ڈبہ کے دروزازہ پر آگیا اور گاڑی ذرا آگے گئی تو پلیٹ فارم پر پہنچی تو گاڑی میں سوار متعدد لوگوں نے پلیٹ فارم پر آئے ہوئے مجمع کو ہاتھوں کے اشارہ سے بلوایا۔ جب گاڑی آہستہ ہوئی تو مجمع بہت قریب آگیا اور انہوں نے ’’غلام احمد کی