احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
حقیقت پسند پارٹی اور مولوی عبدالمنان عمر کے پیروکار پہلے ہی مسلمانوں میں ضم ہوچکے ہیں۔ یہ ہے جماعت احمدیہ کے مستقبل کے متعلق جائزہ۔ میں علماء کرام خصوصاً احرار اور ختم نبوت کی تنظیم کے علماء کی خدمت میں عرض کروں گا جو احمدی پاکستان میں چلتے پھرتے نظر آرہے ہیں وہ مردہ ہیں۔ مردوں کے متعلق واویلا کیا کرنا ہے۔ اب کوشش یہ ہونی چاہئے کہ جو کوئی ان میں سعید روح ہے۔ اس کو دائرہ اسلام میں لائیں۔ ان کو بتائیں کہ رسول کریمﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا اور جس کو تم نے مصلح موعود بنارکھا ہے وہ پرلے درجے کا عیاش تھا۔ مسلمانوں کے دھارے میں آجاؤ یقینا بعض سعید روحیں اپنے باطل عقائد سے تائب ہوجائیں گے۔ باب نمبر:۱۲ مرزامحمود احمد کا حکومتی خاکہ۱؎ … دین کے پردے میں سیاست کاری کسی جماعت کے لئے اس سے زیادہ معیوب بات کوئی نہیں کہ وہ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر چور دروازے سے سیاسی اقتدار، دنیاوی غلبہ اور جماعتی تفوّق حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ کسی مذہبی تحریک یا اس سے پیدا شدہ مذہبی جماعت کو حکومت کی طرف سے جو حمایت حاصل ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ اس حد تک ہوتی ہے۔ جس حد تک وہ مذہبی جماعت اپنے آپ کو خالصتاً مذہبی مشن کے دائرہ کے اندر محدود رکھتی ہے اور سیاسی امور سے مجتنب رہتی ہے۔ لیکن یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ مرزامحمود احمد کی گندی سیاست کا سب سے گھناؤنا پہلو یہ ہے کہ انہوںنے حکومت کے خواب دیکھنے شروع کر دئیے۔ خلیفہ کی یہ خواب کاری برطانوی سنگینوں کے سائے میں خوب پروان چڑھی۔ کیونکہ سفید فام آقاؤں کا یہی منشاء تھا کہ خلیفہ سیاسی منصوبوں میں خود بھی مستغرق رہے اور جماعت کے عقول وقلوب کو بھی اس میں الجھائے رکھے۔ انگریز کی پشت پناہی کایہ نتیجہ ہوا کہ برطانوی حکومت کو بھی احساس ہوا کہ اس کا قانون قادیان میں بالکل بے کار ہوچکا ہے۔ وہاں قتل ہوتے ہیں۔ ان کا سراغ بھی مل جاتا ہے۔ لیکن عدالت میں آکر پولیس ناکام ہوجاتی ہے۔ اس سے انگریز کی ۱؎ ۱۹۵۷ء میں حقیقت پسند پارٹی نے ایک پمفلٹ شائع کیا تھا۔ اس کو ضرور تنسیخ وترمیم کے ساتھ کتاب ہذا میں شامل کیا جارہا ہے۔ اسی پمفلٹ کی اشاعت پر مرزابشیراحمد نے الفضل میں یہ مضامین شائع کئے کہ جماعت احمدیہ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ایک مذہبی جماعت ہے۔