احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
اور ’’احمدیت‘‘ اور ’’اسلام‘‘ کے فروغ کے لئے سادگی اختیار کرنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ اس مسلسل کنڈیشننگ کا یہ عالم ہے کہ عام قادیانی اسے بھی زندگی کا حصہ خیال کرنے لگ پڑتے ہیں۔ ماسٹر محمد عبداﷲ ٹی۔آئی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ انہیں اس بات کا یقینی اور قطعی علم ہوگیا کہ یہ مدرسہ خلیفہ جی اور ان کے حواریوں کو خام مال سپلائی کرنے کی نرسری ہے تو انہیں یہ باتیں زبان پر لانے کی پاداش میں جماعت سے ہی نہیں نکالا گیا بلکہ مذہبی جاگیرداریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں شہر بدر بھی کر دیا گیا۔ جب ان سے پوچھاگیا کہ آپ پھر ’’احمدیت‘‘ پر ہی تین حرف بھیج دیں۔ کیونکہ اس کے رہنماؤں کے احوال وظروف سے تو آپ کو بخوبی آگاہی ہوچکی ہے تو وہ کہنے لگے۔ ’’اے گل تے ٹھیک اے پر فیر چندہ کتے دیاں گے؟‘‘ لاہوری پارٹی کے سابق امیر مولوی صدرالدین نے جب وہ قادیان میں ٹی۔آئی ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے تو انہوں نے بھی اسی صورت حال کو ملاحظہ کیا تھا۔ ماسٹر عبداﷲ اور مولوی صدرالدین نے ایک دوسرے کو ملنا تو درکنار شاید دیکھنا بھی نہ ہو لیکن ان کے بیانات میں مطابقت قادیانیوں کے لئے قابل غور ہے۔ یادوں کا کارواں… چند مزیدجھلکیاں ۱… آغا سیف اﷲ مربی ’’سلسلہ عالیہ احمدیہ‘‘ جو کئی سال تک ۸۷؍سی ماڈل ٹاؤن لاہور میں ’’تبلیغی فرائض‘‘ انجام دیتے رہے ہیں۔ جامعہ احمدیہ میں تعلیم کے دوران ہی اپنے مخصوص ایرانی ذوق کی وجہ سے خاصے معروف تھے اور سیالکوٹ کے نواحی قصبے کے ایک دوسرے طالب علم نصیر احمد سے ربط وضبط کی وجہ سے رسوائی کی سرحدوں تک پہنچے ہوئے تھے۔ موخر الذکر کو قدرے بھاری سرینوں کی وجہ سے نصیر احمد ’’ڈھولکی‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ آغا سیف اﷲ نے میرے سامنے بوجوہ واضح طور پر یہ تو تسلیم نہیں کیا کہ ان کے نصیر احمد کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا تھی۔ لیکن اتنا ضرور بتایا کہ ایک دوسرے مربی صاحب داؤد احمد حنیف نے نصیر احمد سے ’’کرم فرمائی‘‘ کی استدعا کی تھی۔ لیکن انہوں نے آغا صاحب کو بتادیا۔ جس پر انہوں نے داؤد احمد حنیف کو خوب ڈانٹ ڈپٹ کی جو بالواسطہ اشارہ تھا کہ قادیانی امت کے قواعد وضوابط کے مطابق کسی دوسرے کی جولنگاہ میں اس طرح کا کھلا تجاوز درست نہیں۔ آخر اجازت لے لینے میں ایسی کون سی قباحت ہے۔