احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
کوئی نہ ہوگا اور اسی سے روکنے کے لئے اسلام نے تہمت کے مواقع سے بھی بچنے کی تلقین کی ہے۔ میںنے ایک بہت پرانے قادیانی سے ، جو مرزاغلام احمد قادیانی سے لے کر مرزاطاہر احمد تک کے جملہ حالات سے واقف ہیں اور سال خوردگی کی انتہائی سٹیج پر ہونے کی وجہ سے اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ اس بارے میں پوچھا تو کہنے لگے مرزاصاحب (مراد مرزا غلام احمد) نے بھی بڑھاپے میں ؎ ہرچہ باید نو عروسے را ہمہ ساماں کنم واں چہ مطلوب شما باشد عطائے آں کنم کے تحت ایک نوجوان لڑکی سے شادی رچا کر اسے اﷲرکھی سے نصرت جہاں بیگم بنادیا تھا۔ لیکن فطرت کی تعزیروں نے وہاں بھی اپنا کام دکھایا اور پھر ان کی اولاد نے جو کچھ کیا اور جنسی عصیان میں جس مقام تک پہنچی، یہ کام کشتوں کی اولاد ہی کرتی ہے۔ نارمل اولاد یہ کام نہیں کر سکتی۔ کیونکہ کشتوں کے پشتے لگادینا اس کا کام ہی نہیں۔ پچ کی تیاری… بیٹنگ اور باؤلنگ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مرزاناصر احمد آنجہانی نے فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی ایک ایسی طالبہ کو اپنے حبالہ عقد میں لے لیا تھا جس پر ان کے صاحبزادے مرزالقمان احمد نے ڈورے ڈالے ہوئے تھے۔ انہی ایام میں قادیانی حلقوں میں یہ بھی سننے میں آیا کہ مرزاناصر احمد اور مرزالقمان میں شدید شکر رنجی ہی نہیں بلکہ باقاعدہ مخاصمت کا آغاز ہو گیا ہے۔ میں نے ایک پرانے قادیانی خاندان کے کسی قدر مضطرب ایک فرد وائی ایم۔سی۔اے کارنر (دی مال لاہور) پر چائے کی دکان کے مالک انیس احمد سے پوچھا کہ ان خبروں میں کس حد تک صداقت موجود ہے تو انہوں نے بے ساختہ کہا کہ ایسا ہونا تو لازمی تھا۔ کیونکہ کرکٹ پچ کی تیاری تو بیٹے نے کی تھی مگر والد صاحب نے اس پر بیٹنگ اور باؤلنگ شروع کر دی اور پھر وہی ہوا جو ایسے معاملات میں ہوا کرتا ہے کہ چڑھتی دھوپ اور ڈھلتی چھاؤں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ شروع ہو گئی۔ مرزاناصر احمد نے اپنے ازکار رفتہ اعضاء میں جوانی کی امنگیں بھرنے کے لئے تمام جدید وسائل علاج میسر ہونے کے باوجود کشتے کا استعمال شروع کیا جو راس نہ آیا اور اس کا جسم پھول کر کپّا بن گیا اور وہ آناً فاناً اﷲ تعالیٰ کی عبرتناک گرفت میں آ کر کشتے کی آگ میں جھلسنے کے بعد نار جہنم کا ایندھن بننے کے لئے عدم آباد سدھار گیا۔