احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
محمدی بیگم تو ایکبار بھی نہ لوٹی۔ پھر بتاؤ کہ تم ذہنی طور پر کو دن اور مفلوج ہو یا نعوذ باﷲ خداتعالیٰ دروغ گو ہے۔ شاید یہ مشہور عام حقیقی تم پر نہیں بلکہ تم پر لعنتیں ڈالنے کے لئے تمہاری نسلوں پر ظاہر ہوگی کہ الٰہیّات کی زبان میں عورت سے مراد جماعت ہوتی ہے اور پھر اس سب الہامی بیان میں نفخ صور کی پیش گوئی لاکر خداتعالیٰ نے سارے معاملہ کو واضح کر دیا ہے کہ اس جماعت کی گمراہی کی اصلاح مصلح موعود کے وقت میں ہوگی۔ دیکھو حضرت اقدس فرماتے ہیں: ’’خدا کی کتب میں نبی کے ماتحت امت کو عورت کہا جاتا ہے۔‘‘ شیطانی دعویٰ اے پالتو مولویو! جو خطاب یافتہ ہو تمہارا اور تمہارے خلیفہ کا یہ دعویٰ کہ تم آیت استخلاف کے تحت روحانی خلیفہ برپا کر سکتے ہو اور کہ کوئی غیرمامور بھی مصلح موعود ہوسکتا ہے۔ ایک بہت بڑا دعویٰ ہے جو شیطان نے روئے زمین پر کسی سے کروایا۔ یہ دعویٰ خداتعالیٰ کے ازلی قوانین اور روحانی اقدار کے لئے ایک چیلنج ہے اور ایک سرکش ومغرور انسان کا یہ چیلنج قبول کر لیا گیا ہے۔ اب کون ہے کہ جو اس کے ہولناک اور عبرتناک انجام سے اس کو بچاوے۔ اس فتنہ عظیم کو ضرور کچل کررکھ دیا جائے گا۔ خواہ اس کے لئے زمین کو تہہ وبالا اور پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرنا پڑے۔ یہ فقط ہمارے منہ کی باتیں نہیں بلکہ خدا کا کلام ہے۔ ہوش میں آؤ کہ خداتعالیٰ کا غضب بھڑک رہا ہے۔ اے دوستو! جو احمدی کہلاتے ہو اگر امن اور سلامتی چاہتے ہو تو ان طاغوتی خیالات اور عزائم پر لعنت ڈال کرخدتعالیٰ سے صلح کر لو اور ’’ایداﷲ بنصرہ‘‘ سے پرے ہٹ جاؤ اور دیکھو کہ خداتعالیٰ ’’اید اﷲ بنصرہ‘‘ سے کیا سلوک کرتا ہے۔ جہاں تک دلائل اور خبردار کرنے کا کام تھا وہ تو ہم نے کر دیا۔ مگر ہم تقدیر کے نوشتوں کو نہیں بدل سکتے اور ان بدبختوںکا مداوا نہیں کر سکتے جن کے لئے ہلاکت اور گمراہی مقدر ہو… مگر ہماری یہ مختصر تحریر ان تفصیلات کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم چالیس پچاس صفحات میں اپنا مانی الضمیر بیان کر دیں گے۔ لیکن خیالات کو نگارش کا پیراہن پہنانے کا ہمیں کوئی تجربہ نہ تھا۔ جس کی وجہ سے ہماری موجودہ تحریر ہی قریباً دو صد صفحات پر پھیل گئی ہے۔ لہٰذا ہم ایک دو ضروری وضاحتوں کے بعد اپنی تحریر کو یہیں پرختم کرتے ہیں۔ دراصل یہ موضوع اس قدر طویل ہے کہ بلائے دمشق اور آیت استخلاف اور مصلح موعود کے عنوان پر علیحدہ علیحدہ ضخیم کتابیں لکھی جاسکتی ہیں اور دراصل ان مسائل پر روشنی ڈالنا علماء کا کام تھا۔ لیکن ان کی مسلسل خاموشی نے ہمیں مجبورکیا کہ ہم قلم اٹھائیں۔ پس ہماری تحریر میں عبارات آرائی اور ادب کی تلاش عبث ہے۔ اس