احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
کرتے ہوئے میں نے مرزامحمود کے متعلق کہا کہ اس کی اخلاقی حالت سخت ناگفتہ بہ ہے۔ اس پر ایک قادیانی اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا اس کی وضاحت کریں۔ میں نے کہا یہ الفاظ بہت واضح ہیں۔ وہ پھر بولا۔ کیا اس نے تمہاری شلوار اتاری تھی۔ میں نے جواب دیا۔ اسی بات کو بیان کرنے سے میں جھجھک رہا تھا۔ آپ اپنے خلیفہ کے مزاج شناس ہیں۔ آپ نے خوب پہچانا ہے۔ یہی بات تھی۔ جلسہ کے تمام سامعین کھلکھلا کر ہنس پڑے اور وہ صاحب آہستہ سے کھسک گئے۔‘‘ میں کہاں آنکلا جناب محمد صدیق ثاقب زیروی قادیانی امت کے خوش گلو شاعر ہیں۔ اگر وہ اپنی شاعری کو مرزاغلام احمد قادیانی کے خاندان کی قصیدہ خوانی کے لئے وقف کر کے تباہ نہ کرتے تو ملک کے اچھے شعراء میں شمار ہوتے۔ سچ کہنے کی پاداش میں وہ ربوائی ریاست کے زیرعتاب رہ چکے ہیں۔ مگر اب چونکہ انہوں نے خوف فساد کی وجہ سے قادیانی امت کے سیاسی ومعاشی مفادات کے لئے اپنے آپ کو رہن کر رکھا ہے اور ’’ہفت روزہ لاہور‘‘ قادیانی امت کا سیاسی آرگن بن گیا ہے۔ اس لئے اب ربوہ میں ان کی بڑی آؤ بھگت اور خاطر مدارت ہوتی ہے اور ہر طرف سے انہیں ’’بشریٰ لکم‘‘ کی نوید ملتی ہے۔ عرصہ ہوا انہوں نے ایک نظم اپنے خلیفہ صاحب کے بارہ میں لکھی تھی مگر اشاعت کے مرحلہ پر اس پر یہ نوٹ لکھ دیا گیا۔ ’’ایک پیر خانقاہ کی لادینی سرگرمیوں سے متأثر ہوکر۔‘‘ قارئین غور فرمائیں کہ ’’پیر خانقاہ‘‘ اور ربوہ کے مذہبی قبرستان کے احوال میں کیسی مماثلت ومشابہت ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اسی کی تصویر ہے۔ شورش زہد بپا ہے میں کہاں آ نکلا ہر طرف مکر و ریا ہے میں کہاں آ نکا نہ محبت میں حلاوت نہ عداوت میں خلوص نہ تو ظلمت نہ ضیا ہے میں کہاں آ نکلا چشم خود بیں میں نہاں حرص زرد گوہر کی کذب کے لب پہ دعا ہے میں کہاں آ نکلا راستی لحظہ بہ لحظہ ہے رواں سوئے دروغ صدق پابند جفا ہے میں کہاں آ نکلا دن دہاڑے ہی دکانوں پہ خدا بکتا ہے نہ حجاب اور حیا ہے میں کہاں آ نکلا یاں لیا جاتا ہے بالجبر عقیدت کا خراج کیسی بے درد فضا ہے میں کہاں آ نکلا خندہ زن ہے سفلگی اس کی ہر اک سلوٹ میں یہ جو سرسبز قبا ہے میں کہاں آ نکلا دلنوازی کے پھریروں کی ہواؤں کے تلے جانے کیا رینگ رہا ہے میں کہاں آ نکلا عجز سے کھلتی سمٹتی ہوئی باچھوں پہ نہ جا ان کے سینوں میں دغا ہے میں کہاں آ نکلا