احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
مرزا صاحب کے مریدان باصفا کا ایک جم غفیر ہے۔ ہر شخص کے چہرے پر اضطراب کی جھلکیاں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اپنے پیر کے دیدار کی ایک معمولی سی جھلک ان کے دل ناصبور کو اطمینان بخش دے گی۔ پرائیویٹ سیکرٹری کے حکم کے مطابق کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی تھیں۔ یعنی ہر شخص کی الگ الگ چار جگہوں پر جامہ تلاشی لی جاتی تھی اور اس امر کی تاکید کی جاتی تھی کہ حضرت اقدس کے قریب پہنچ کر نہایت آہستگی سے السلام علیکم کہا جائے اور پھر یہ کہ اس کے جواب کا منتظر نہ رہا جائے۔ بلکہ فوراً دوسرے دروازے سے نکل کر باہر آجایا جائے۔ میں خود ملاقات کی غرض سے حاضر ہوا تھا۔ گراں بندشوں نے کچھ آزردہ سا کر دیا اور میں واپس چلا گیا۔ چنانچہ پھر دو بجے بعد از دوپہر دوبارہ حاضر ہوا۔ شیخ نورالحق صاحب، جو ان کے ذاتی دفتر کاایک رکن ہے۔ اس سے اطلاع کے لئے کہا۔ حضرت اقدس نے خاکسار کو شرف باریابی بخشا۔ اس وقت کی گفتگو جو ایک مرید (میرے) اور ایک پیر (مرزاصاحب) کے درمیان تھی۔ ہدیہ ناظرین کرتا ہوں۔ میں نے نہایت بے تکلفی سے کام لیتے ہوئے حضور سے دریافت کیا کہ ’’آج کل تو آپ سے ملنا بھی کارے دارد ہے۔‘‘ فرمایا: ’’وہ کیسے؟‘‘ عرض کیا کہ چار چار جگہ جامی تلاشی لی جاتی ہے تب جاکر آپ تک رسائی ہوتی ہے۔ جواباً انہوں نے میرے ’’عمود لحمی‘‘ کو پکڑ کر ارشاد فرمایا کہ: ’’جامہ تلاشی کہاں ہوئی ہے کہ جس مخصوص ہتھیار سے تمہیں کام لینا ہے وہ تو تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود اپنے ساتھ اندر لے آئے ہو۔‘‘ اس حاضر جوابی کا بھلا میرے پاس کیاجواب ہوسکتا تھا۔ میں خاموش ہوگیا۔مگر ایک بات جومیرے لئے معمہ بن گئی، وہ یہ تھی کہ سنا تو یہ تھا کہ چارپائی سے ہل نہیں سکتے۔ حتیٰ کہ سلام کا جواب بھی نہیں دے سکتے تھے۔ مگر وہ میرے سامنے اس طرح کھڑے تھے۔ جیسے انہیں قطعی کوئی تکلیف نہیں تھی۔ میں میاں صاحب کی خدمت میں التماس کروں گا کہ اگروہ اس بات کو جھٹلانے کی ہمت رکھتے ہیں تو حلف مؤکد بعذاب اٹھائیں اور میں بھی اٹھاتا ہوں۔ ایم یوسف ناز، کراچی حال مقیم لاہور (یہاں عبارت کی عریانی دور کرنے کی سعی کی گئی ہے)