احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
بارات ربوہ چل پڑی۔ والدہ صاحب خوش کہ آج اس کی امید برآئی ہے۔ ’’حضور‘‘ کے گھر کی دلہن بناکرلا رہی ہوں۔ لیکن قدرت کو کوئی اور ہی منظور تھا۔ محمد نصراﷲ اس دلہن کی بدکرداری کی وجہ سے گھر نہ لانے کا پکا ارادہ کر چکے تھے۔ دولہا کار میں سوار ہوکر پشاور کی طرف چل دیا۔ اب بارات ربوہ میں بیٹھی چوہدری محمد نصراﷲ کی آمد کا انتظار کر رہی ہے دیر ہوگئی تو سوچا ایسا نہ ہو کہ راستے میں کوئی حادثہ پیش آگیا ہو۔ چوہدری ظفر اﷲ کے تعاون سے پولیس کے ذریعہ معلومات حاصل کیں کہ کہیں حادثہ تو نہیں ہوا۔ اس کے ساتھ کار کے ذریعے دو آدمی واپس لاہور بھیجے کہ پولیس چوکیوں اور تھانوں سے معلوم کرتے جاؤ کہ کہیں کوئی حادثہ تو نہیں ہوا۔ تھانوں، چوکیوں سے معلومات حاصل کرتے ہوئے لاہور پہنچے تو گھر سے معلوم کیا کہ وہ تو بارات کی روانگی سے تھوڑی دیر بعد ہی لاہور سے چلا گیا ہے۔ ادھر ربوہ (چناب نگر) میں مرزامحمود احمد آتش غضب میں جل رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ میری خاندانی پالیسی ہی صحیح ہے کہ شادیاں اپنے ہی گھرانوں میں کریں۔ آج ایک لڑکی باہر دے کر ذلت اور رسوائی کا سامنا کر رہا ہوں۔ چوہدری خاندان مارے ندامت گردنیں جھکائے بیٹھے ہیں۔ آخر اسی بارات کی موجودگی میں کسی دوسرے لڑکے کے ساتھ رخصتی کر دی گئی۔ محمد نصراﷲ کے نہ آنے کی وجہ دریافت کی کہ شاید جوانی میں کوئی طبی نقص ہو جس کی وجہ سے شادی سے گریز کر گیا ہے۔ لیکن چوہدری محمد نصراﷲ نے نہایت صفائی سے کہا کہ میں اپنے گھر میں بیوی لانا چاہتا ہوںکوئی داشتہ نہیں۔ بے شک مجھے عاق کر دیں۔ مجھے اس کا کوئی غم نہیں۔ مجھے (مؤلف) یہ تومعلوم نہیں کہ آیا اس کو عاق کر دیا گیا تھا یا نہیں۔ لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ وہ اپنے خاندان سے الگ خوش وخرم زندگی گزار رہا ہے۔ اس کا خاندان کے ساتھ کوئی معاشرتی تعلق نہیں۔ ایک اور نوجوان مبشر احمد کی منگنی کا قصہ ہر احمدی کھاتے پیتے خاندان کی یہی خواہش ہے کہ کسی طرح مرزامحمود احمد کے خاندان سے تعلق قائم ہو جائے۔ چک نمبر۹۸ شمالی ضلع سرگودھا کا ایک نوجوان مبشر احمد مقابلے کے امتحان میں شعبہ پولیس میں منتخب ہوگیا۔ والدین کی خواہش ہوئی کہ مرزامحمود احمد کے گھرانے کی خوبصورت دلہن لائی جائے اور جماعت میں مقام عزت پائیں۔ کسی طرح خاندان کی یہ امید برآئی کہ بچے کی منگی مرزامحمود احمد کے خاندان میں ہوگئی۔ منگنی کی وجہ سے مرزاخاندان کے افراد (لڑکیوں اورلڑکوں) سے روابط بڑھے تو نوجوان کی آنکھوں سے عقیدت کا پردہ چاک ہوا۔ حقیقت آشکار ہوئی۔ معلوم ہوا اس حسن کے پیچھے گند کا ڈھیر ہے۔ والدین کی ناراضگی کے باوجود