احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
پشاور کے ایک کالج میں زیر تعلیم ہے۔ مگر ’’خاندان نبوت‘‘ کے غنڈے وہاں سے بھی اسے اغوا کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ مگر مقامی مسلمان طالب علموں، اساتذہ اور پرنسپل کی خصوصی نگہداشت کے سبب وہ ابھی تک اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس کی ایک وجہ رضوان کے عزیز واقارب کا پوری طرح چوکس رہنا ہے۔ اگر وہ کہیں ربوہ میں ہی رہائش پذیر ہوتے تو پتہ نہیں قادیانی غنڈے ان کا کیا حشر کرتے اور اس بستی میں کوئی ایک شخص بھی سچی گواہی دینے کے لئے تیار نہ ہوتا۔ جب تک حکومت ربوہ کی رہائشی زمین کی (جو کراؤن لینڈ ایکٹ کے تحت کوڑیوں کے مول لی گئی تھی) لیز ختم کر کے لوگوں کو مالکانہ حقوق نہیں دیتی اور وہاں کارخانے لگا کر روزگار کے مواقع پیدا نہیں کرتی۔ ایک ہی اقلیت کے تسلط کے باعث یہاں غنڈہ گردی ہوتی رہے گی اور قانون بے بس اور لاچار رہے گا۔ عروسہ گیسٹ ہاوس جنرل ضیاء الحق مرحوم کے زمانے میں ’’خاندان نبوت‘‘ کے معتوب امیدوار ’’خلافت‘‘ مرزارفیع احمد کے ایک انتہائی قریبی عزیز پیر صلاح الدین جو بیوروکریسی میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز رہے ہیں، راولپنڈی میں ’’عروسہ گیسٹ ہاوس‘‘ کے نام سے فحاشی کا ایک اڈہ چلاتے ہوئے پکڑے گئے۔ جس پر ان کا منہ کالا کیاگیا اور اس کی روسیاہی کی تصویریں تمام قومی اخبارات میں شائع ہوئیں۔ جس کو اس بارے میں کوئی شک ہو، وہ نوائے وقت اور جنگ کے فائلوں میں یہ تصویر دیکھ سکتا ہے۔ فیر چندہ کتھے دیاں گے قادیانی امت نے ماڈرن گداگروں کا روپ دھار کر اپنے مریدوں کی جیبیں صاف کرنے کے لئے چندہ عام، چندہ جلسہ سالانہ، چندہ نشرواشاعت، چندہ وصیت، چندہ تحریک جدید، چندہ وقف جدید، چندہ خدام الاحمدیہ، چندہ انصار اﷲ، چندہ اطفال الاحمدیہ، چندہ بہشتی مقبرہ اور اس طرح کے بیسیوں دیگر چندے وصول کرنے کے لئے گداگری کے اتنے کشکول بنائے ہوئے ہیں کہ عام قادیانیوں سے جینے اور مرنے کا بھی ٹیکس وصول کر لیا جاتا ہے اور خود تو ’’خاندان نبوت‘‘ کے افراد اندرون ملک اور بیرون ملک عیاشانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ لیکن اپنے مریدوں کو سادگی