احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
اور اس خبیث عقیدہ سے باز آجائیں تو رحمت الٰہی کا دروازہ کھلا ہے۔ وہ لوگ جو میری دعوت کے رد کرنے کے وقت قرآن شریف کی نصوص صریحہ کو چھوڑتے ہیں اور خداتعالیٰ کے کھلے کھلے نشانوں سے منہ پھیرتے ہیں۔ ان کو راست باز قرار دینا اسی شخص کا کام ہے جس کا دل شیطان کے پنجہ میں گرفتار رہے۔ والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ! خاکسار: مرزاغلام احمد از قادیان خط نمبر:۷ ڈاکٹر عبدالحکیم خان بنام مرزاغلام احمد قادیانی بسم اﷲ الرحمن الرحیم! ’’نحمدہ ونصلے علیٰ رسولہ الکریم‘‘ حضرت مسیح الزمان السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ میں حیران ہوں کہ یہ الزام آپ نے مجھ پر کیسے لگایا کہ میرا یہ خیال ہے کہ آپ نے مولوی عبدالکریم کی صحت وحیات کی بابت قطعی خبر دی تھی اور وہ غلط نکلی۔ نہیں ہرگز نہیں۔ میں نے ہرگز۱؎ نہیں لکھا بلکہ میں نے تو یہ لکھا تھا کہ میں آپ کے استنباط اور استدلال کو معصوم نہیں مانتا۔ چنانچہ آپ مولوی عبدالکریم کی نسبت اپنے اور دوسروں کے خوابوں کو مبشر فرماتے رہے۔ حالانکہ وہ مبشر نہ تھے۔ بلکہ ان کی موت کی نسبت قطعی خبر تھی۔ نہ میں نے یہ لکھا کہ وہ الہامات شائع نہ ہونے (حاشیہ گذشتہ صفحہ) ۲؎ تعجب ہے کہ میں ہر امر میں قرآنی بینات سے متواتر اور بکثرت پیش کر رہا ہوں۔ آپ ان کا کوئی جواب نہیں دیتے۔ بلکہ ان پر عمل کرناخدا کے حکم کو چھوڑنا ظاہر فرماتے ہیں۔ میں تو باربار عرض کر رہا ہوں کہ براہ کرم مجھے وہ الفاط خداوندی بتلادیجئے۔ جن میں تمام امت محمدیہ خارج از اسلام قرار دی گئی ہے۔ خواہ ان پر تبلیغ ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ کیا محض قادیان میں بیٹھے رہنے یاچند اخبارات واشتہارات کے شائع ہونے کے یہ معنی ہیں کہ دنیا کے ہر فرد پر تبلیغ ہوچکی اور ان کا خلاف اور ارتداد اس حد تک پہنچ گیا کہ ان پر فرد جرم قائم کر دی جائے۔ اﷲتعالیٰ تو قتل مؤمن کو بھی اسی حالت میں کفر قرار دیتا ہے۔ جب کہ وہ قتل عمد ثابت ہو جائے۔ آپ اس وقت نہ محض قرآن کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔ بلکہ عام عرف اور عقل کو بھی جواب دے رہے ہیں۔ کیا تو وہ وقت تھا کہ آپ مولویوں پر طنز کیا کرتے تھے کہ وہ کلمہ گویوں کو کافر کہتے ہیں اور قول امام نقل کیا کرتے تھے کہ جس شخص میں ۹۹اجزاء کفر کے ہوں اور ایک جز اسلام کا ہو۔ اس کو بھی کافر نہ کہنا چاہئے۔ میں اب تک اسی تعلیم پر قائم ہوں اور آپ اس سے مرتد ہوگئے۔ آپ کا قول تھا۔ گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں۔ ان لوگوں کو میں تو اس پر عامل ہوں۔ مگر آپ میرے سلام اور دعائیں سن کر مجھے بھی خارج از اسلام اور مرتد بتارہے ہیں اور جماعت سے خارج کرتے اور سلام تک نہیں لکھتے۔ آپ کا قول تھا۔ اے دل تو نیز خاطر انباں نگاہدار آخرکنند دعویٰ حب پیغمبرم۔ یہ آپ کے الہامی قصیدہ کا شعر ہے۔ مگر آپ اس سے مرتد ہوگئے اور میں اس پر قائم ہوں اور امت محمدی کو بلاوجہ صریح کافر نہیں کہہ سکتا اور آپ بلاوجہ کافر کہتے ہیں۔ اچھی خاطر ہوئی۔ ۱؎ یہ ہے نمونہ حکم آسمانی کی قوت فہم اورفیصلہ کا۔