احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
صاحب نے ایک پائی بھی آج تک میرے سامنے اخبار کو نہیں دی۔ میں تعجب کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے مرزاقادیانی کو چھوڑا۔ آنحضرتﷺ کی رسالت کو بے کارمانا۔ انبیاء پر ایمان لانا غیرضروری قرار دیا۔ مگر کیا عام اخلاقی باتیں بھی اب ان کے نزدیک قابل عمل نہیں اور کیا اب وہ ایسے خطرناک ہوگئے کہ صریح جھوٹ بولنا ان کے نزدیک نہ صرف جائز بلکہ فرض اور واجب کا درجہ رکھتا ہے۔ میں نے اس خیال سے کہ شاید گذشتہ سالوں میں برادر محمد افضل کو وہ پانچ پانچ روپیہ دیا کرتے ہوں پرانے رجسٹر نکال کر بھی دیکھے ہیں۔ مگر ان سے بھی کہیں شہادت نہیں ملتی کہ ڈاکٹر صاحب نے کبھی اخبار بدر کی ۵؍روپے قیمت سالانہ دی ہو۔ رجسٹروں سے معلوم ہوا ہے کہ ۱۹۰۳ء کی قیمت آپ نے صرف دو روپے چھ آنہ دی تھی اور اس کے بعد کے سالوں کی قیمت دو روپیہ آٹھ آنہ سالانہ کے حساب سے دی تھی۔ حالانکہ قیمت دو روپے بارہ آنہ سالانہ ہے۔ اس سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ لنگر کو جو آپ نے ہزاروں روپے دئیے ان کی حقیقت کیا ہے۔ باوجود اس جھوٹ کی عادت کے پھر ملہم ہونے کا دعویٰ جس شخص نے ایسی بے باکی سے دروغ بیانی پر کمرباندھی ظاہر ہے کہ اس کے الہامات میں شیطان کا کس قدر حصہ ہوگا اور رحمان کا کس قدر۔ اوّل تو خود ہی یہ کمینگی اور سفلہ پن ہے کہ میں نے یہ دیا تھا۔ وہ دیا تھا اور پھر اس پر جھوٹ۔ دراصل ڈاکٹر نے معلوم ہوتا ہے کہ خیال کیا ہوگا کہ وہاں کسی نے پڑتال تو کرنی ہی نہیں۔ چلو پیٹ بھر کر جھوٹ بولو کہ میں نے ہزاروں دے اور سینکڑوں خرچ، مگر جھوٹے کی عقل ماری جاتی ہے۔ ساتھ ہی اخبار بدر کے متعلق بھی پانچ روپیہ سالانہ چندہ دینے کا ذکر لکھ مارا اور یہ سوچ لیا ہوگا کہ محمد افضل مرحوم فوت ہوگیا ہے۔ کون پوچھے گا مگر یہ نہ سوجھا کہ ممکن ہے کہ پرانا ریکارڈ موجود ہو اور موجودہ کارکنان پرانے رجسٹروں کی پڑتال ہی کر بیٹھیں۔ نہایت افسوس ہے کہ اس کم حوصلگی اور دروغ بیانی کے ساتھ ایک شخص الٰہی سلسلے کی مخالفت میں خم ٹھونکتا ہے اور نہیں خیال کرتا کہ اس کی ہستی کیا ہے۔ باقی آئندہ!‘‘ جواب بد راز ڈاکٹر باقی آئندہ کی توفیق باطل کو نہ ملی اور نہ مل سکے گی۔ بحکم ’’جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زھوقا‘‘ میرے سوالات کے جوابات خوب دئیے گئے۔ اب ان پر کچھ اور لکھنے کی مجھے ضرورت نہیں۔ ہاں! اس تحریر میں جو نئے دجل کھلے ہیں اور جھوٹ بکواس مارا ہے۔ اس کو جتلائے بغیر نہیں رہ سکتا۔