احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
مرزاقادیانی کی حالت کا ہے۱؎۔ اس عرصہ میں ڈاکٹر عبدالحکیم خان صاحب غیرمعمولی طور پر صحیح وتندرست رہے۔ فرسٹ گریڈ کے امتحان میں بعزت کامیاب ہوئے۔ صدہا بشارات پوری ہوئیں۔ ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ء کو بشارت ہوئی۔ ’’انا نبشرک بغلام اسمہ یحییٰ‘‘ یہ بشارت ڈاکٹر صاحب نے مولوی نورالدین کے نام بھی ایک خط میں لکھ دی تھی۔ سو الحمدﷲ! کہ ۲۹؍اپریل ۱۹۰۴ء کو رات کے ۱۲بجے کے قریب ان کے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوا اور اس کا نام حسب بشارت خداوندی یحییٰ رکھا گیا۔ پٹیالہ میں یہ بشارت قبل از وقت بہت اشخاص کو سنا دی گئی تھی۔ جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔ مولوی فضل حق ومحمد بیگ۔ یہ دونوں مرزائی ہیں۔مولوی فضل متین صاحب جنرل رجسٹرار ریاست پٹیالہ، سردار سزوپ سنگھ فرسٹ گریڈ ہاسپٹل اسسٹنٹ۔ یہ تو مرزاقادیانی کے دکھ درد، امراض توحش، رجوع اور پریشانی دماغ کا بیان ہوا۔ اب اصل موت کا ذکر اس کے الفاظ میں سنئے وہ کتنی بار اس پر وارد ہوئی اور کس طرح ٹلی۔ مرزا اور موت کے نظّارے ۱… مرزا لکھتا ہے۔ ’’۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۶ء کو میں نے دیکھا کہ کسی کی موت قریب ہے۔ یہ متعین نہیں ہوا کہ کس کی موت آئی ہے۔ تب اس کشفی حالت میں میں نے دعا کی۔ الہام ہوا۔ ’’ان المنایا لا تطیش سہا مہا‘‘ یعنی موتوں کے تیر خطا نہیں جاتے۔ تب میں نے اسی کشفی حالت میں ہی پھر دعا کی کہ اے خدا تو ہر چیز پر قادر ہے۔ تب الہام ہوا۔ ’’ان المنایا قد تطیش سہا مہا‘‘ (موتوں کے تیر کبھی ٹل بھی جایا کرتے ہیں) اس کے بعد یہ بھی الہام ہوا۔ رسیدہ بود بلائے ولے۔ بخیر گذشت۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ہم سب میں سے کسی کے حق میں ہے۔ (تذکرہ طبع سوم ص۶۷۸) ۲… الحکم ۱۷؍نومبر ۱۹۰۶ء میں مرزاقادیانی نے اپنا الہام شائع کیا۔ ’’کمترین کا بیڑا غرق ہوگیا۔‘‘ (تذکرہ طبع سوم ص۶۸۳) ۱؎ مرزاقادیانی کا الہامی لڑکا مبارک احمد فوت ہوگیا۔ باوجودیکہ اس کی ایام بیماری میں اس کی نسبت بہت دعا کی اور الہام بھی ہوا کہ قبول کی گئی اور نویوم کا تپ ٹوٹ گیا۔ کچھ افاقہ ہونے پر اس کی شادی بھی کر دی۔ ڈاکٹر صاحب کو ۷؍ستمبر ۱۹۰۷ء کو الہام ہوا۔ آج مرزاقادیانی کے ٹوسٹ میں قلق ہے۔ ۱۶؍ستمبر ۱۹۰۷ء کو مبارک احمد کا افاقہ اور شادی کے بعد انتقال ہوا۔