احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
اصطلاح استعمال کر کے ظاہری خلافت کے تحت اپنی خلافت کا ذکر تو کرتے ہیں اور روحانی خلافت کا نام تک نہیں لیتے۔ اب اس ساری دجل کاری کا تجزیہ کون کرے۔ اس تحریر میں ہمارے لئے مشکل ہے کہ ہم خلیفہ کے عیارانہ بیان کے ایک ایک لفظ کی وضاحت کریں۔ جس طرح ان کا دین خانہ ساز اور انوکھا ہے۔ ان کی سب اصطلاحیں خانہ ساز اور انوکھی ہیں۔ جیسا کہ ہم پیچھے حوالے دے چکے ہیں۔ مسیح موعود نے خلافت کی ظاہری شکل سے حکومت مراد لی ہے۔ مگر خلیفہ کمال عیاری سے کہتے ہیں کہ دوبارہ خلافت کی ظاہری شکل نورالدین سے شروع ہوئی۔ اب ایسا مہمل بیان یا تو کسی کو دن کا ہوسکتا ہے اور یا کسی عیار کا۔ مرزامحمد کے پالتو پس اے وے پالتو مولویو! جو خطاب یافتہ ہو۔ ’’ماہذا لتماثیل التی انتم لہا عاکفون‘‘ کیا تمہارا خلیفہ آیت استخلاف کی ظاہری شکل کے تحت کسی سلطنت کا سربراہ ہے یا اس کی باطنی اور روحانی شکل کے تحت مجدد اور مامور ہے۔ اگر آیت استخالف کی ان دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی صورت تمہارے مناسب حال نہیں تو اے ظالمو! اے فتنہ گرویدہ کیا پاکھنڈ تم نے رچایا ہے اور تمہارے خلیفہ اپنی تقریر کے ص۱۵ پر کون سے آسمان سے حکم دیتے ہیں: ’’کہ آئندہ خلافت کے لئے میں یہ قاعدہ منسوخ کرتا ہوں کہ شوریٰ انتخاب کرے۔ بلکہ میں یہ قاعدہ مقرر کرتا ہوں۔‘‘ اب یہ کون سی طاغوتی خلافت ہے کہ جس کے قاعدے منسوخ ہورہے ہیں اور مقرر کئے جارہے ہیں۔ کیا اس خلافت کا بجز پاپائیت کے قرآن شریف اسلام اور تاریخ ادیان میں کوئی مثال ملتی ہے۔ اے ظالمو! یہ کس دجل کاری میں تم مبتلا کر دئیے گئے ہو۔ خلیفہ کی تقریر میں خدا کا نام تو محض بطور بیت وزن استعمال ہوتا ہے۔ ورنہ جملہ قواعد تو وہ خود ہی بنارہے ہیں اور ان قواعد کے تحت خلافت سازی کے اختیارات خود ہی اپنی پالتو اور ملازم عملہ کو دے رہے ہیں اور سراسر ایک کار خداوندی پر پنجہ مار رہے ہیں۔ اے ظالمو! ہم تمہیں تمہارے خلیفہ کی ہی زبان میں آگاہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ وہ اپنی تقریر کے ص۱۹ پر کہتے ہیں کہ: ’’شیطان نے بتادیا ہے کہ ابھی اس کا سر نہیں کچلا گیا۔ وہ ابھی تمہارے اندر داخل ہونے کی امید رکھتا ہے۔‘‘ الّو پیغام صلح کی تائید اور محمد حسین چیمہ کا مضمون بتاتا ہے کہ ابھی مارے ہوئے سانپ کی دم ہل رہی ہے۔ اور وہ مفلوج ہونے کے باوجود اپنی سرشت سے باز نہیں آتا اور اپنی فطرت کے