احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
کوئی اولاد پیدا نہیں ہوئی۔ ان الہامات کے حتمی طور پر یہ معنی تھے کہ مصلح موعود کسی آئندہ زمانے میں پیدا ہوگا۔ پس ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء کی مصلح موعود والی پیش گوئی کے متعلق جس کو بڑے طمطراق اور تحدی سے باربار مشتہر کیا جاتا رہا باربار اجتہادی قیاس آرائیوں کا غلط ثابت ہونا ایک صدمہ تھا۔ جس سے مسیح موعود اور اس کے رفقاء کو دوچار ہونا پڑا اور اس تمام عرصہ میں مسیح موعود اس پیش گوئی کے بارے میں بڑے حساس ہوچکے تھے۔ مرزا کو بدکار لڑکا ہوگا ایسے حالات میں استعارۃً اور تمثیلاً ایک بدکار لڑکے کے بارے میں بھی مسیح موعود کو الہامات ہورہے تھے۔ مگر وہ ذہن کہ جو اولاد میں مصلح موعود کی تلاش میں مستغرق اور محو تھا اور مخالفوں کے تیروں کا نشانہ بنا ہوا تھا ان الہامی استعارات اور تمثیلات پر پورا پورا دھیان نہ دے سکا۔ گویا مصلح موعود کی پیش گوئی نے بدکار لڑکے کی پیش گوئی پر ایک حجاب ڈالے رکھا اور یہ حجاب، ذہنی کیفیت، تمثیلات اور استعارات کے رنگ میں ہونا بھی چاہئے تھا کہ اگر مسیح موعود کو صاف اور کھلے الفاظ میں اور نام لے کر بتادیا جاتا کہ آپ کا فلاں لڑکا بدکار اور جماعت کے لئے فتنہ کا باعث بنے گا تو اس سے مسیح موعود کو کس قدر تکلیف ہوتی اور دینی مہمات میں کس قدر رخنہ اور تعطل پڑ جاتا اور پھر مسیح موعود ایسے لڑکے کو گھر میں رہنے ہی کیوں دیتے، فوراً عاق کر کے لاتعلقی کا اعلان فرمادیتے اور گھر سے نکال دیتے۔ جیسا کہ موجودہ خلیفہ پر ایک شکایت کی بناء پر جو کہ ان کی بدچلنی کے ہی متعلق تھی۔ مسیح موعود نے عاق اور گھر سے نکال دینے کا ارادہ ظاہر کر دیا تھا۔ ایسی صورت میں یہ لڑکا خلیفہ کیوں کر بنتا اور وہ سارا فتنہ جس کا ذکر الہامات الٰہی میں موجود ہے کیونکر پیدا ہوتا۔ پس دین کے اس حصہ کو جو امور غیب اور پیش گوئیوں پر مشتمل ہوتا ہے پراسرار رکھا جاتا ہے اور ان کے بیان کرنے میں استعارات اور تمثیلات سے کام لیا جانا ضروری اور لابدی ہوتا ہے۔ تا الہامی حقائق لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوکر یکے بعد دیگرے وقوع پذیر ہوتے رہیں۔ تاوقتیکہ وہ وقت آن پہنچے کہ جو پیش گوئی کے ظاہر ہونے کے لئے مقدر ہو۔ پس اس بات میں خداتعالیٰ کے کلام کے پراسرار ہونے میں بھی ایک حکمت ہوتی ہے۔ مقدر میں مصلح نہیں بدکار؟ اب یہ کس قدر پراسرار کام ہے کہ مامور تو ایک مصلح کی تلاش میں مضطرب ہے۔ لیکن فی البدیہہ مقدر میں ایک بدکار لڑکا ہے۔ یہ مضمون اگرچہ مزید وضاحت طلب ہے۔ مگر ہم