احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
وسیع وعریض رقبے کو جاننے والا اپنے ایمان کی دولت کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔ جب یہ شخص اپنے باپ کو بھی نہیں بخشتا تو یہ کیا نہ کرتا ہوگا۔‘‘ مؤلف ’’فتنہ انکار ختم نبوت‘‘ سے ان الفاظ کی وضاحت چاہی گئی تو انہوں نے کہاکہ: ’’مصلح الدین سعدی نے مؤکد بعذاب قسم کھا کر مجھے بتایا کہ ایک دن، میں مرزامحمود کی ہدایت پر ایک لڑکی کے ساتھ داد عیش دے رہا تھا کہ وہ آیا۔ اس نے لڑکی کے سرینوں کے نیچے سے قرآن پاک نکالا۔‘‘ (استغفراﷲ) آخری فقرہ کے بارہ میں ان کا کہنا ہے کہ مولوی فضل دین صاحب نے انہیں بتایا کہ انہیں ان کے بڑے بھائی مولوی علی محمد صاحب اجمیری نے بتایا تھا کہ مرزامحمود اپنی محفل خاص میں کہا کرتا تھا کہ ’’حضرت مسیح موعود‘‘ بھی یہی کام کرتے تھے۔ تین سہیلیاں تین کہانیاں قادیان اور ربوہ میں بے شمار ایسی کہانیاں جنم لیتی ہیں جو مجبور مریدوں کی ارادت اور قادیانی گسٹاپو کے تشدد کے باعث ہمیشہ کے لئے دفن ہو جاتی ہیں اور اس ریاست اندر ریاست کومذہب کے لبادے میں ہر شرمناک کارروائی کرنے کی کھلی چٹھی مل جاتی ہے اور حکومت کا قانون، عاجز اور بے بس ہی نہیں، لاوارث اور یتیم ہو جاتا ہے۔ انہی کہانیوں میں سے ایک کہانی غلام رسول پٹھان کی بیٹی کلثوم کی ہے۔ جس کی نعش تالاب میں پائی گئی۔ اس لڑکی کلثوم کی سہیلی عابدہ بنت ابوالہاشم خاں بنگالی کو شکارکے بہانے باہر لے جایا گیا اور ترکی ضلع جہلم میں ’’اتفاقیہ‘‘ گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ تیسری سہیلی امت الحفیظ صاحبہ بنت چوہدری غلام حسین صاحب ابھی بقید حیات ہیں۔ اگر وہ اپنی دو سہیلیوں کے ’’اتفاقیہ‘‘ قتل پر روشنی ڈال سکیں تو تاریخ میں ان کا نام سنہرے حروف سے لکھا جائے گا اور اس طرح مرزامحمود احمد کی کرامات میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ ’’مصلح موعود‘‘ کی کہانی حکیم عبدالوہاب کی زبانی حکیم عبدالوہاب عمر قادیانی امت کے خلیفہ اوّل مولانا نورالدین کے صاحبزادے ہیں۔ ان کا بچپن اور جوانی قصر خلافت کے درودیوار کے سائے میں گزری ہے اور اس آسیب کا سایہ جس پر بھی پڑا ہے اس نے مشاہدہ پر اکتفاء کم ہی کیا ہے۔وہ حق الیقین کے تجربے سے گزرا ہے۔ یہی حال حکیم صاحب کا ہے۔ اگرچہ اس مرتبہ میں متعدد دوسرے افراد بھی ان کے شریک ہیں۔ لیکن انہیں یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ اپنی داستان بھی بغیر کسی لاگ لپٹ کے کہہ سناتے ہیں اور