احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
دجل وجھوٹ وبکواس اوّل… تو مجھ سے پیشگی قیمت دینے والوں کی فہرست طلب فرمائی ہے۔ سبحان اﷲ! روپیہ تو وصول کرے مرزا اور فہرست طلب ہو مجھ سے؟ پہلے ایڈیشن کی تمام جلدیں فروخت ہوچکیں۔ اس کا ثبوت اسی قدر کافی ہے کہ پہلی ایڈیشن کے بعد براہین احمدیہ کئی بار چھپ چکی ہے۔ جن لوگوں نے پانچ روپیہ سے زیادہ قیمت دی۔ ان میں سے چند ایک کے نام جو مجھے معلوم ہیں حسب ذیل ہیں۔ آنریبل خلیفہ سید محمد حسن صاحب بہادر مرحوم وزیر ریاست پٹیالہ، پانچ سو روپیہ۔ منشی الٰہی بخش صاحب اکاؤنٹنٹ مصنف عصائے موسیٰ، دو سو روپیہ۔ مقبول شاہ صاحب شملہ پندرہ روپیہ، منشی وزیرعلی صاحب شملہ دس روپے۔ میاں چراغ الدین صاحب کلرک چالیس روپیہ۔ پیر بخش صاحب دس روپیہ۔ شیخ عبداﷲ صاحب دس روپیہ۔ میر عبداﷲ صاحب دس روپیہ۔ مولوی علی محمد صاحب دس روپیہ۔ داروغہ عبدالرحیم خان صاحب دس روپیہ۔ منشی غلام محی الدین صاحب پندرہ روپیہ۔ منشی عبدالحق صاحب اکاؤنٹنٹ دس روپیہ۔ ڈاکٹر سید امیر شاہ صاحب دس روپیہ۔ میاں غلام رسول صاحب دس روپیہ۔ شیخ شمس الدین صاحب دس روپیہ۔ میاں چراغ الدین صاحب تاجر کتب دس روپیہ۔ اب رہا واپسی کا حساب سو اس کی کیفیت یہ ہے کہ جو جلدیں واپس ہوئیں تھیں وہ بھی فروخت ہوچکی۔ جو باقی رہی یا مفت دی گئی اس کا حساب البدر کو دینا چاہئے جو مرزاقادیانی کا اخبار ہے۔ نہ کہ غیر کو سچ ہے ’’دجال کانا ہوگا پر خدا کانا نہیں۔‘‘ مرزا کا چندہ مانگنا دوم… مرزاقادیانی کی نسبت لکھا ہے کہ وہ کسی سے کچھ طلب نہیں کرتے اور نہ جتلاتے ہیں۔ یہ سفید جھوٹ ہے۔ باربار اخباروں اور اشتہاروں اور پرائیویٹ خطوں میں مرزاقادیانی اور مرزائیوں کے سوالات پہنچتے ہیں۔ ۲۳،۳۰؍جنوری۱۹۰۷ء کے البدر میں مرزاقادیانی نے شائع کیا کہ ہر ایک بیعت کنندہ پر فرض ہے کہ حسب توفیق ماہواری یاسہ ماہی وار لنگر خانہ کا چندہ روانہ کرتا رہے۔ ورنہ ہر تین ماہ کے بعد اس کا نام بیعت سے خارج کیا جائے گا۔ اب رہا جتلانا تو یہ حق دینے والے کا ہے۔ نہ کہ لینے والے کا۔ لینے والا تو خاص کر جب بدنیتی اور بے ایمانی ساتھ ہو تو ہمیشہ چھپایا کرتا ہے۔ نہ کہ جتایا کرتا ہے۔ ’’سچ ہے دجال کانا ہوگا پر خدا کانا نہیں۔‘‘