احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
جواب دے دوں گا۔ گھبراؤ مت۔ باہر ایک دو آدمی میرا انتظار کر رہے ہیں ان سے مل آؤں۔ مجھے یہ کہہ کر اس کمرے کے باہر کی طرف چلے گئے اور چند منٹ بعد پیچھے کے تمام کمروں کو قفل لگا کر اندر داخل ہوئے اور اس کا بھی باہر والا دروازہ بند کر دیا اور چٹخنیاں لگا دیں۔ میں جس کمرہ میں بیٹھی تھی وہ اندر کا چوتھا کمرہ تھا۔ میں یہ حالت دیکھ کر سخت گھبرائی اور طرح طرح کے خیال دل میں آنے لگے۔ آخر میاں صاحب نے مجھ سے چھیڑ چھاڑ شروع کی اور مجھ سے برا فعل کروانے کو کہا، میں نے انکار کیا۔ آخر زبردستی انہوں نے مجھے پلنگ پر گرا کر میری عزت برباد کر دی اور ان کے منہ سے اس قدر بدبوآرہی تھی کہ مجھ کو چکر آگیا اور وہ گفتگو بھی ایسی کرتے تھے کہ بازاری آدمی بھی ایسی نہیں کرتے۔ ممکن ہے جسے لوگ شراب کہتے ہیں۔ انہوں نے پی ہو کیونکہ ان کے ہوش وحواس بھی درست نہیں تھے۔ مجھ کودھمکایا کہ اگر کسی سے ذکر کیا تو تمہاری بدنامی ہوگی مجھ پر کوئی شک بھی نہ کرے گا۔‘‘ (مباہلہ جون ۱۹۲۹ء) مولانا محمد اسماعیل غزنوی مرحوم کی تحقیق (غیر از جماعت) ایک دفعہ خاکسار مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا تو مرزامحمود کے متعلق یہ دو واقعے سنائے۔ مولانا محمد اسماعیل غزنوی حکیم نورالدین کے نواسے تھے اور مرزامحمود سے ان کی خاصی بے تکلفی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ: ’’مرزامحمود احمد ایک عورت کو شب باشی کا پانچ صد روپیہ ادا کرتا تھا۔‘‘ مجھے علم ہوا تو میں نے کھوج لگانا شروع کیا اور بالآخر اسے ڈھونڈ نکالا اور پوچھا تم کیسے مرزامحمود سے پانچ سو روپیہ فی رات وصول کرلیتی ہو۔ اس عورت نے بے باکانہ جواب دیا: ’’مولوی توں راتیں میرے نال سوں، جے صبح توں مینون پنج سو روپیہ نہ دتتے میں تینوں ہزار روپیہ دیواں گی۔‘‘ مولوی صاحب یہ جواب سن کر حیران رہ گئے۔ ملک عزیزالرحمن کا کہنا ہے کہ یہ بیگم عثمانی تھیں اور اس کا بیٹا سعود عثمانی بھی مرزامحمود کی رنگین محفل کا ممبر تھا۔ قادیان کا راجہ اندر… عریاں عورتوں کے جھرمٹ میں مولانا (محمد اسماعیل غزنوی) نے بتایا کہ مرزا محمود دریائے بیاس کے کنارے پھیروچچی میں پکنک منایا کرتا تھا اور ایسے موقع پر وہاں متعدد خیمے لگائے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ وہاں ڈاک بنگلہ تعمیر کرنے کا پروگرام بھی بنا تھا۔ ایک موقع پر مجھے دریائے بیاس پر پکنک منانے کی دعوت دی تو میں جب وہاں پہنچا تو دربان نے انہیں روک لیا۔ ازاں بعد خلیفہ جی کو اطلاع دی گئی اور مجھے اندر