احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
التماس ہے کہ میں نے آپ کو جو بات بتائی تھی، میں خدا کو حاضروناظر جان کر کہتا ہوں کہ وہ بات بالکل صحیح ہے۔ اگر میں جھوٹ بولوں تو خدا کی لعنت ہو مجھ پر… خاکسار: حبیب احمد اعجاز باب نمبر:۶ مرزابشیراحمد ابن مرزاغلام احمد کے کردار کی ایک جھلک فصیح الدین کا بیان منجھلے میاں بشیراحمد کے متعلق فصیح الدین مدرسہ احمدیہ کا ایک حسین لڑکا تھا۔ درمیانہ قد، گندمی رنگ، نقش تیکھے، ابھرے ہوئے ہپس اور اعلیٰ گلوکار تھا۔ جب قادیان میں آل انڈیا کبڈی ٹورنامنٹ ہوا تھا تو اس لڑکے نے نظم ’’قادیان‘‘ پڑھی۔ تو اپنی خوش الحانی کی وجہ سے بہت مشہور ہوا۔ ویسے تو اپنے حسن اور ابھرے ہوئے ہپس کی وجہ سے تو پہلے ہی کافی جانا پہچانا تھاتو اس کی شہرت مرزابشیراحمد کے پاس بھی پہنچی تو اس کو اپنی خلوت گاہ میں بلایا۔ ابھرے ہوئے ہپس اور موٹے ران دیکھ کر دیوانہ ہوگیا اور اپنی لذت شہوت کے لئے پسند کر لیا۔ بقول فصیح الدین پھر …… ’’حوض‘‘ کر دی۔ (فصیح الدین بہت منہ پھٹ تھا) فصیح الدین نے کہا ایک دن مرزابشیر احمد نے کہا اور بھی آپ کی طرح کا کوئی لڑکا ہے۔ میں نے جواب دیا بالکل مجھ سے بھی زیادہ خوبصورت اور موٹی رانوں والا ہے۔ مرزابشیراحمد نے کہا تو اس کو آج میرے پاس فلاں دروازے سے بھیجو۔ فصیح کہتا ہے میں بورڈنگ میں آیا۔ مشتاق احمد شیخوپوری سے کہا۔ ’’حضرت میاں بشیر احمد آپ کو یاد کر رہے ہیں۔‘‘ مشتاق تو پھولے نہ سمایا۔ زہے قسمت! حضرت مرزابشیراحمد صاحب اور میں۔ الغرض مشتاق بتائے ہوئے دروازے سے مرزابشیراحمد کے خلوت خانہ میں داخل ہوا تو ساتھ ہی اس کی عقیدت کا شیشہ چکنا چور ہوگیا۔ اس کے ساتھ جو بیتی وہ مشتاق ہی جانتا ہے۔ فصیح کہتا ہے میں اب مشتاق کاانتظار کرنے لگا۔ وہ آئے تو اس کا حال پوچھوں۔ چنانچہ کچھ عرصہ بعد منہ لٹکائے پریشانی کے عالم میں بورڈنگ میں آگیا۔ میں نے دیکھتے ہی پوچھا سناؤ مشتاق ’حضرت میاں بشیر احمد صاحب’‘‘ نے کس غرض اور مقصد کے لئے بلایا تھا۔ مشتاق نے جواب دیا۔ ’’بکواس مت کرو۔‘‘ میں نے گالی دے کر کہا۔ مرزابشیراحمد نے تو میری ’’حوض‘‘ کر دی ہوئی ہے۔ تم صرف ایک بار تنگ پڑ گئے ہو۔