احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
تقدس وخلافت کے پردے میں عیاشیوں کا ایک وسیع جال بچھا ہوا ہے۔ جس میں بھولے بھالے لڑکوں ولڑکیوں کو مذہب کے نام پر قابو کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ان حالات کی وجہ سے میں ’’ان‘‘ سے بہت متنفر ہوگیا اور میں نے اب صدق دل سے اس ناپاک Society جماعت سے اپنا قطع تعلق کر لیا ہے اور توبہ کرکے صحیح معنوں میں مسلمان ہوگیا ہوں۔ یاد رہے کہ میں ربوہ کے قصر خلافت میں عرصہ چھ ماہ تک آتا جاتا رہا ہوں اور مجھ سے کوئی پردہ وغیرہ نہیں کیا جاتا تھا۔ نیز مجھے معلوم ہے کہ علاوہ قصر خلافت کے ’’خاندان نبوت‘‘ میں کیسے کیسے رنگین اور سنگین حالات رونما ہوتے ہیں جو وقت آنے پر بتلائے جاسکتے ہیں۔ اگر میرے مذکورہ بالا بیان کی صحت پر نعیم کو کوئی اعتراض ہو تو میں بروقت ان کے بالمقابل مباہلہ کرنے کے لئے تیارہوں۔ راقم الحروف: خلیل احمد، سابقہ متعلم جامعہ احمدیہ، ربوہ مورخہ ۲۷؍نومبر ۱۹۶۱ء راحت ملک کا چیلنج خلیفہ ربوہ کے نام جناب عطاء الرحمن راحت ملک،گجرات کے مشہور لیبر لیڈر ہیں۔ کسی زمانہ میں وہ مرزامحمود آنجہانی کے چرنوں میں تھے۔ وہاں انہوں نے جنسی بے راہروی کا ایسا طوفان دیکھاکہ چکرا کر رہ گئے۔ جب انہیں یقین کامل ہوگیا کہ مرزامحمود ایک بدکردار اور بدکار انسان ہے تو انہوں نے بیعت کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکا اور ’’دور حاضر کا مذہبی آمر‘‘ کے نام سے ایک خوبصورت کتاب لکھی جس میں خلیفہ ربوہ کے دعویٰ الہام کی قلعی کھولتے ہوئے لکھا ہے ؎ جس کی آغوش میں ہر شب ہے نئی مہ لقا اس سے خدا بولتا ہے مجھ کو یہ معلوم نہ تھا اسی دور میں انہوںنے خلیفہ ربوہ کو ایک کھلی چٹھی لکھی تھی جو ہم درج ذیل کرتے ہیں۔ مکرمی میاں صاحب! سلام مسنون! آپ کا دعویٰ ہے کہ خدا آپ سے خلوت اور جلوت میں باتیں کرتا ہے اور نیز یہ کہ آپ صاحب الہام ہیں۔ علاوہ ازیں آپ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ آپ خداکے محبوب ہیں۔ خدا آپ پر عاشق ہے اور ہر لمحہ آپ سے مکالمہ ومخاطبہ کرتا ہے۔ اگر آپ کے مندرجہ بالا دعوی درست ہیں تو میں یہ دریافت کرنے کی جسارت کروں گا کہ: