احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
یہ الفاظ میں نے دلی ارادہ سے لکھ دئیے ہیں تاکہ دوسروں کے لئے ان کی حقیقت کا انکشاف ہو سکے۔ والسلام! (ڈاکٹر محمد عبداﷲ آنکھوں کا ہسپتال قادیان حال لائل پور) مرزامحمد حسین اتالیق خاندان مرزامحمود احمد کی کہانی مرزامحمد حسین صاحب ۴۴۔اے، آریہ نگر، سمن آباد، لاہور قادیانی امت کے خاندان نبوت کی مستورات کے اتالیق رہے ہیں۔ وہ ایک علم دوست، خلوت پسند اور کم آمیز شخص ہیں۔ مگر اس کے باوصف لاہورکے علمی وادبی حلقوں میں خاصے معروف ہیں۔ حضرت آغا شورش کاشمیری مرحوم نے اپنی کتاب ’’نورتن‘‘ میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ گاہے ماہے وہ قادیانیت سے اپنی علیحدگی کی داستان اپنے رفقاء کو سناتے رہتے ہیں۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ: ’’میرا بچپن غربت، جوانی، علالت اور بڑھاپا کتابوں میں گزرا ہے۔ میں قادیان میں مرزامحمود احمد کے گھر میں مستورات کا اتالیق رہا ہوں اور کسی (Closed Society) میں رہتے ہوئے وہاں کے سربراہ کی خواتین کا استاد ہونا اس معاشرے کے لحاظ سے خاصی فخر کی بات ہوتی ہے۔ اگر میں مرزا محمود احمد اور اس کے جلو میں رہنے والے افراد کی بدچلنی کے بارہ میں حق الیقین کے مقام تک نہ پہنچتا تو نہ قادیان کو چھوڑتا اور نہ قادیانیت کو ترک کرتا۔‘‘ اس کے بعد اپنی دکھ بھری کہانی بیان کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے: ’’مستورات کا استاد ہونے کی وجہ سے مجھے خلیفہ جی کی مختلف بیویوںکی باہمی چپقلش اور سوقیانہ طعنے بازی کاعلم تو ہوتا رہتا تھا۔ مگر میں اسے زیادہ اہمیت نہ دیتا تھا۔ رفتہ رفتہ مجھے ڈاکٹر احسان علی (قادیان کا سانڈ)، مصلح الدین سعدی اور پھر نذیر ڈرائیور سے بڑے تواتر کے ساتھ یہ معلوم ہونا شروع ہوا کہ ’’قصر خلافت‘‘ میں جنسی عصیان کا ناپاک دھندہ ہوتا ہے۔ میں اپنی طبیعت اور مزاج کے اعتبار سے ان باتوں کو تسلیم کرنے کے لئے قطعاً تیار نہ تھا، گو حقائق اور واقعات دن بدن بکھر کر سامنے آرہے تھے۔ میں یہ سوچ کر دل کو تسلی دیتا رہا کہ ’’خلیفہ صاحب‘‘ کے اردگرد رہنے والے لوگ بدمعاش ہیں۔مگر خود ان کے بارے میں کوئی ایسی بات میرے حاشیہ خیال میں بھی نہ تھی۔ آخر،میں نے اس امر کا ارادہ کر لیا کہ ان افراد میں سے کسی کو اعتماد میں لوں اور پھر خلیفہ صاحب کو ان لوگوں کی خباثتوں سے مکمل طور پر آگاہ کر دوں تاکہ اس ذہنی خلجان سے نجات پاؤں، جس سے میں گزر رہا تھا۔ میں نے اپنے اس ارادہ کا مصلح الدین سعدی سے ذکر کیا تو اس نے کہا پہلے حضرت صاحب سے اجازت لے لیں۔ بعد ازاں مجھے بتایا گیا کہ حضرت صاحب تمہارے متعلق سن کر حیران تو ہوئے۔مگر اب انہوں نے اجازت دے دی ہے۔ میں اس وقت بھی اس یقین سے معمور