احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
روپیہ ادا کرتا تھا۔‘‘ مجھے علم ہوا تو میں نے کھوج لگانا شروع کیا اور بالآخر اسے ڈھونڈ نکالا اور پوچھا تم کیسے مرزامحمود سے پانچ سو روپیہ فی رات وصول کر لیتی ہو۔ اس عورت نے بے باکانہ جواب دیا: ’’مولوی توں راتیں میرے نال سوں، جے صبح توں مینوں پنج سو روپیہ نہ دتاتے میں تینوں ہزار روپیہ دیواں گی۔‘‘ مولوی صاحب یہ جواب سن کر حیران رہ گئے۔ ملک عزیزالرحمن صاحب کا کہنا ہے کہ یہ بیگم عثمانی تھیں۔ قادیان کا راجہ اندر… دریا کے کنارے مولانا موصوف ہی نے بتایا کہ مرزامحمود دریائے بیاس کے کنارے پھیروچچی میں پکنک منایا کرتا تھا اور ایسے موقع پر وہاں متعدد خیمے لگائے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ وہاں ڈاک بنگلہ تعمیر کرنے کا پروگرام بھی بنا تھا۔ ایسے ہی ایک جشن کے موقع پر، وہ وہاں گئے تو گیٹ کیپر نے انہیں روک لیا۔ ازاں بعد خلیفہ جی کو اطلاع دی گئی اور انہیں اندر بلالیا گیا اور وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ مرزامحمود پندرہ بیس بالکل عریاں لڑکیوں کے جھرمٹ میں بیٹھا ہے اور اس کے اپنے جسم پر بھی کوئی کپڑا نہیں۔ وہ اس منظر کی تاب نہ لاسکے اور نگاہیں نیچی کرلیں تو مرزامحمود نے نہایت اوباشانہ طریقے سے پوچھا: ’’مولانا کیا ہوا ہے۔‘‘ مولوی ظفر محمد صاحب ظفر کا مقاطعہ کیوں؟ مولوی ظفر محمد صاحب ظفر عربی زبان کا نہایت اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں اور عربی اور اردو ہر دو زبانوں میں اس قدر خوبصورت شعر کہتے ہیں کہ ان کے قادیانی ہونے پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ ایک مرتبہ پاپائے ثانی نے ان کا سوشل بائیکاٹ کر دیا اور پھر بڑی مدت کے بعدان کی جان چھوٹی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ: ’’جن باتوں کا مجھے علم ہے اگر میں تمہیں بتادوں تو تم مرتد ہو جاؤ۔‘‘ یہ فقرہ کسی تفسیر کبیر کا محتاج نہیں۔ البتہ قادیانیوں کی پختہ زنّاری کی ’’داد‘‘ دینی پڑتی ہے کہ: ’’وہ سب کچھ جان کر بھی ’’انوار خلافت‘‘ اور ’’برکات خلافت‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹتے پھرتے ہیں۔‘‘ جب میں نے مولوی صاحب ایسے بے ضرر انسان کے ساتھ اس بدترین سلوک کی تحقیقات شروع کی تو پتہ چلا کہ انہیں بھی یہ سزا ’’اس جرم‘‘ کی پاداش میں ملی تھی کہ انہیں اپنے ’’مصلح موعود‘‘ کی عدیم المثال جنسی انارکی کاعلم ہوگیا تھا۔ اب ذرا تفصیل مطالعہ فرمائیں: