احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
بے وضونماز پڑھانا ’’تواڈی نمازان نے یہہ ماریا اے‘‘ مرزامحمود احمد کا بے وضو نماز پڑھانے پر تمام ’’اہل محفل بتاں‘‘ متفق ہیں۔ خواہ مولوی عبدالوہاب ہوں، خواہ نذیر ریاض ہو، خواہ عبدالسلام اختر ہو، خواہ یوسف ناز ہوں، خواہ مبارک شاہ۔ سب کایہی متفقہ بیان ہے کہ مرزامحمود احمد جنابت کی حالت میں نماز پڑھادیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر محمد احمد حامی (ڈاکٹر، مرزامحمود احمد کی رنگین محفل کے رکن نہیں تھے) بیان کرتے ہیں مجھ سے مبارک شاہ نے بیان کیا۔ کیا ایک دن مرزامحمود احمد ’’محفل بتان‘‘ میں بیٹھا ہوا تھا۔ خوش گپیاں چل رہی تھیں۔ اتنے میں موذن آیا اور اس نے آواز دی۔ ’’حضور نماز کا وقت ہوگیا ہے۔‘‘ آواز سنتے ہی بے ساختہ کہا۔ ’’تواڈی نمازاں نے یہہ ماریا اے‘‘ بے وضو حالت میں گیا اور مسجد مبارک میں نماز پڑھادی۔ پھر واپس آکر ’’بتوں‘‘ سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔ سب کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ مرزامحمود احمد نے کبھی روزہ نہیں رکھا تھا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ حسین عورت کی صحبت کے بغیر رہ نہیں سکتا تھا۔ اس طرح شعائر اﷲ کا قطعاً احترام نہ کرتا تھا۔ یہ شخص عجیب شخصیت کا مالک تھا۔ نجی محفل میں ایک شیطان کے روپ میں ہوتا تھا۔ جب باہر مریدوں میں آتا کسی نماز جمعہ یاجلسہ سالانہ کے موقع پر تو یوں ظاہر کرتا کہ اس سے بڑھ کر خدا کا کوئی پیارا نہیں۔ خدا اس کے وجود میں حلول کر آیا ہے۔ اس سے وابستہ رہنے سے ہی خدا کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ اس کو چھوڑنے سے انسان دہریہ ہو جاتا ہے اور آخرت میں وقود نار بنتا ہے۔ مرید بیچارے اپنی اندھی عقیدت کی جہالت سے یہی سمجھتے ہیں کہ ان کی نجات محمود کامنور چہرہ دیکھنے میں ہی ہے۔ اس کے دیدار سے تمام گناہوں کے دھبے دھل جاتے ہیں۔ اگر کوئی خلیفہ کی برائی کا ذکر کر دے تو بڑی معصومیت سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ احراریوں کی شرارت ہے یا پیغامیوں (لاہوری احمدیوں کو مرزامحمود احمد حقارت کی وجہ سے ان کے اخبار پیغام خلیفہ کی طرف نسبت کر کے پیغامی کہا کرتا تھا) کی طرف منسوب کر دیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ مرزامحمود احمد کا وجود جاہل احمدیوں کے نزدیک رب من دون اﷲ ہے۔ یہ ہے وہ دجال جس کا ذکر حدیث میں آیا ہے۔ دوسری شہادت فتح محمد المعروف ’’فتا شیر‘‘ کی میں حلفاً کہتا ہوں کہ ایک مرتبہ مرزامحمود احمد نے محفل رنگ وشباب سجائی ہوئی تھی کہ موذن نے آکر روایتی انداز میں آواز لگائی۔ ’’حضور نماز کے لئے‘‘ یعنی نماز کا وقت ہوگیا ہے تو حضور نے جو بڑے موڈ میں تھے، کہا: ’’اک تے تہاڈیاں نمازاں نے یہہ ماریا اے۔‘‘