احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
دیں۔ جو سڑ گیا ہے اور اس میں کیڑے پڑ گئے ہیں۔‘‘ (الذکر الحکیم نمبر:۴، خط نمبر۲، از مرزاقادیانی بنام ڈاکٹر عبدالحکیم خان) پوری امت مسلمہ کو سڑا ہوا دودھ، کیڑے پڑ گئے، کا مصداق بنا دیا۔ پھر بھی ڈاکٹر عبدالحکیم خان نے خط نمبر۳ میں ’’مسیح الزمان‘‘ سے خط کا آغاز کیا۔ مگر مرزاقادیانی تو ’’بھوترے ہوئے بولد‘‘ بگڑے ہوئے بیل کی طرح واہی تباہی پر اتر آیا۔ ’’الذکر الحکیم نمبر۴، خط نمبر۴‘‘ میں مرزاقادیانی نے ڈاکٹر عبدالحکیم خان کو لکھا کہ: ’’ماسواء اس کے اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔‘‘ اسی طرح مرزاقادیانی نے رسالہ (تحفۃ الندوہ ص۸، خزائن ج۱۹ ص۱۰۱) کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ: ’’وہ قتل بھی کیا گیا ہو کیونکہ وہ مرتد تھا۔‘‘ یہاں پر قادیانی حضرات سے میری درخواست ہے کہ آج کی پوری قادیانیت اس پر متفقہ مؤقف رکھتی ہے کہ: ’’مرتد کی سزا قتل نہیں۔‘‘ مگر مرزاقادیانی کہتا ہے کہ: ’’اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔‘‘ گویا خدائی حکم اور وہ بھی مرزاقادیانی کے قلم سے۔ لیکن قادیانیوں کی بدنصیبی ملاحظہ ہوکہ وہ مرزاقادیانی کے قلم سے نکلے ہوئے خدائی حکم کو نہیں مانتے۔ برادران دینی!! یعقوب عرفانی قادیانی نے قادیان سے مرزاقادیانی کے مکتوبات کو سات حصوں میں شائع کیا۔ اب ان کو کمپیوٹر پر قادیان ولندن سے تین جلدوں میں شائع کیا گیا۔ لیکن ان دونوں ایڈیشنوں (قدیم وجدید) میں مرزاقادیانی نے جو خطوط محمدی بیگم کے نکاح کے سلسلہ میں اس کے ورثاء کو لکھے تھے جن کو کلمہ فضل رحمانی میں قاضی فضل احمد گورداسپوری نے شائع کیا اور مرزاقادیانی نے عدالت میں تسلیم کیا کہ وہ میرے خطوط ہیں اور پھر وہ خطوط جو مرزاقادیانی نے ڈاکٹر عبدالحکیم خان کے خطوط کے جوابات میں تحریر کئے جو مرزاقادیانی کی زندگی میں ہی الذکر الحکیم نمبر۴ میں ڈاکٹر عبدالحکیم خان نے شائع کر دئیے تھے۔ وہ تمام خطوط قادیانیوں کے شائع کردہ قدیم وجدید ایڈیشنوں میں موجود نہیں۔ قادیانیوں نے اپنے خود ساختہ نبی کے قلم پر سنسر لگا رکھی ہے۔ وہ ان خطوط کو یوں چھپاتے پھرتے ہیں جیسے بلّی اپنے گوہ کو چھپاتی ہے۔ ان خطوط سے قادیانی اس طرح بھاگتے ہیں جس طرح باؤلا کتا پانی سے اور کوّا غلیل سے بھاگتا ہے۔ ان خطوط سے قادیانیوں کے ایمان کی طرح جان بھی جاتی ہے۔ کیا قادیانی عوام سوچیں گے کہ مرزاقادیانی