احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
مگر جب انجام آتھم کو از اوّل تا آخر دیکھا تو (ص۲۸۲، خزائن ج۱۱ ص۲۸۲) پر ان شعروں کا ترجمہ حسب ذیل ملا۔ ’’یا ربنا افتح بیننا بکر امۃ یا من یریٰ قلبی ولبّ لحائی اے خدائے درما بکرامت خودفیصلہ کن… اے آنکہ دل مراد مغز پوست مرا می بینی۔ یا من اریٰ ابوابہ مفتوحۃ للسائلین فلا ترد دعائی اے آنکہ درہائے اورا… برائے سائیلان کشادہ می بینم دعائے مرار دمکن۔‘‘ اب ناظرین غور فرماویں کہ اوّل تو تتمہ حقیقت الوحی میں ان شعروں کا ترجمہ کرتے وقت الفاظ ذیل بڑھادئیے ’’یعنی کاذب کو صادق کے سامنے ہلاک کر۔ یعنی میری زندگی میں سعد اﷲ کو ذلت کی موت دے۔‘‘ اصل الفاظ میں نہ تو سعد اﷲ کے مرنے یا مرزاقادیانی کی زندگی میں مرنے کا ذکر ہے۔ دوم: یہ مرزاقادیانی کی ایک بددعا ہے کہ پیش گوئی اور اس کی جس کی جبلی عادت ہے کہ تمام مسلمان، علماء، فضلاء کو ہمیشہ کوستا رہتا ہے۔ جب کوئی مر جاتا ہے تو اپنے کوسنے اور سب وشتم کو پیش گوئی بنالینا ہے۔ سوم: اپنی طرف سے اکثر پیش گوئیاں کرتا رہتا ہے۔ جب کوئی پیش گوئی پوری نہ ہو تو اس کو اپنی آرزو میں شمار کر لیتا ہے۔ چنانچہ مولوی محمد حسین اور اس کے رفقاء کی پیش گوئی کی نسبت (حقیقت الوحی ص۱۸۸، خزائن ج۲۲ ص۱۹۵) میں لکھتا ہے۔ ’’صرف میری طرف سے دعا تھی کہ اتنی مدت میں ایسا ہو۔ سو خداوند تعالیٰ اپنی وحی کا پابند ہوتا ہے۔ اس پر فرض نہیں ہے جو اپنی طرف سے التجا کی جائے۔ بعینہ اس کو ملحوظ رکھے۔‘‘ پس جو دعا یا بددعا اتفاقاً پوری ہوگئی وہ پیش گوئی بن گئی اور جو پوری نہ ہوئی اس کا کوئی ذکر نہیں۔ ڈوئی کی نسبت ۳۰… آج کل ڈوئی امریکہ کی وفات پر مرزائی شادیانے بجارہے ہیں۔ مگر آج تک پیش گوئی کا الحکم یا البدر نے کوئی پتہ نہیں دیا کہ وہ کب اور کن الفاظ میں کی گئی تھی۔ تاکہ اصل الفاظ سے انجام کا مقابلہ کیا جائے۔ ہاں مرزاقادیانی نے اپنے الفاظ میں ضرور اس کو مباہلہ کے واسطے مدعو کیا تھا۔ اس طرح پر تو اس نے (انجام آتھم ص۶۹تا۷۲، خزائن ج۱۱ ص۶۹تا۷۲) میں ایک سوچار مشائخ کا نام گنا کہ کل علماء اور مشائخ کو مباہلہ کے واسطے مدعو کیا تھا اور جتلادیا تھا کہ اگر مباہلہ میں میرے مقابلہ پر آئے تو سب کے سب ایک سال کے اندر فنا ہو جائیں گے یا مہلک امراض میں