احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
خداتعالیٰ ہمیں صحت عطاء فرمائے گا اور مجھے وہ قوتیں عطاء کرے گا جن سے میں خدمت دین کر سکوں۔ واﷲ اعلم بالصواب!‘‘ (تذکرہ طبع سوم ص۶۱۷) اور اس میں یہ بھی خوشخبری ہے کہ اﷲتعالیٰ میری بیوی کو بھی صحت اور تندرستی عطاء کرے گا۔ چونکہ مرزاقادیانی کو اپنے الہاموں کی نسبت خوب تجربہ ہوچکا تھا کہ وہ واقعی طور پر کبھی بھی پورے نہیں ہوئے۔ ایسا ہی واقعات اس کو بھی جھوٹا ثابت کریں گے۔ اس لئے پہلے ہی ’’ان کنتم فی ریب من نزلنا علٰی عبدنا فاتوا بشفاء من مثلہ‘‘ کے دعویٰ کی اپنے الفاظ میں ہی تردید کر دی۔ گویا کہ الہام میں کوئی دعویٰ تھا ہی نہیں یا الہام کے لفظ ناقابل اعتبار۔ بلکہ سراسر لغو اور جھوٹ ہوتے ہیں۔ صاف الفاظ میں تحدی آمیز دعوے اور اس پر یہ حاشیہ کہ ’’خداتعالیٰ ان کے بہتر معنی جانتا ہے۔ صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ ہمیں صحت عطاء فرمائے گا۔‘‘ کیا قرآنی وحی کی بھی یہی عزت وعظمت ہے کہ اس کے الفاظ بھی قابل اعتبار نہیں۔ بلکہ سراسر لغو اور جھوٹ ہوتے ہیں؟ اے کانے دجالو! یہی قرآنی عظمت ہے جس کو تم دنیامیں قائم کرنا چاہتے ہو؟ اسی حوصلہ پر مرزاقادیانی دو سال سے حقیقت الوحی کے پھنکارے مار رہا ہے۔ ۱۴… ’’من ذالذی ہو اسعد منک‘‘ (تذکرہ طبع سوم ص۶۹۵) تجھ سے زیادہ سعادت مند کون ہے۔ ۱۵… ’’کل الفتح بعدہ‘‘ (تذکرہ طبع سوم ص۶۹۶، ۱۸؍فروری ۱۹۰۷ء) اس کا کچھ انجام نہیں ہوا۔ مگر کوئی مرزائی نہیں سوچتا۔ ۱۶… ’’ارید ما تریدون‘‘ (۲۵؍مئی ۱۹۰۸ء) خداوند عالم کسی کے ارادہ کا تابع نہیں۔ بلکہ ہر ارادہ اسی کے ارادہ کے موافق ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے۔ ’’ما تشاؤن الّا ان یشاء اﷲ رب العالمین (التکویر:۲۹) وہو علیٰ کل شیٔ قدیر‘‘ پس یہ الہام صریحاً باطل ہے۔ ۱۷… میں اس عورت کو سزا دوں گا۔ ’’ویل الامراۃ بعلہا‘‘ (تذکرہ طبع سوم ص۶۱۰) اس عورت اور اس کے خاوند کے واسطے عذاب ہے۔ یہ ایک مرزائی بھید کے متعلق ہے۔ جس پر کوئی مرزائی روشنی ڈال سکتا ہے۔ دو سال سے یہ الہام ہو رہے ہیں۔ مگر وہ بیچارے بیگناہ مردوعورت اب تک صحیح وسلامت ہیں۔ ہاں! قادیان سے ضرور نکالے گئے۔ ۱۸… ۱۱؍فروری ۱۹۰۶ء کا الہام۔ پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیاگیا تھا۔ اب ان کی دلجوئی ہوگی۔ (تذکرہ طبع سوم ص۵۹۶) آج اگست ۱۹۰۷ء تک اس کا کوئی نتیجہ نہیں۔ نہ معلوم اب اور دلجوئی سے کیا مراد ہے؟