احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
ہے۔ مگر مرزاقادیانی کی ہر ایک بات یا تو ’’تقولون مالا تفعلون (الصف:۲)‘‘ کی مصداق ہے یا ’’یحبون ان یحمد وابما لم یفعلوا (آل عمران۔۱۸۸)‘‘ کی اوروں سے وصول کرنے کو کہتا ہے کہ صدیق اکبرؓ کی طرح سارا مال دین کے واسطے قربان کرو۔ مگر خود ایک حبہ دین کے واسطے نہیں نکالتا۔ بلکہ اوروں سے ٹھگتا رہتا ہے۔ کہیں براہین کے نام سے ٹھگا، کہیں سراج منیر کے نام سے، کہیں مفت اشاعت کتب کے نام سے، کہیں لنگر کے نام سے، کہیں توسیع مکانات کے نام سے، کہیں منارہ کے نام سے، کبھی بہشتی مقبرہ کے نام سے، کہیں توسیع مسجد کے نام سے۔ مفسر القرآن ہونے کا دعویٰ، مگر تفسیر ندارد۔ حکم ہونے کا دعویٰ مگر فیصلہ ندارد، فنا فی الرسول ہونے کا دعویٰ مگر عمل میں مخالف، مظہر محمد ہونے کا دعویٰ مگر اعمال میں صفر، یا خلاف۔ ترک دنیا بدیگر آموزند خویشتن سیم و غلہ اندوزند اب گھر کے چوباروں کا نام مسجد رکھ کر توسیع مسجد کے نام پر چندے وصول کر رہا ہے۔ ۱۲… اسی طرح پر مرزاقادیانی کے صدہا الہامات واقوال ہیں جن میں الفاظ کے خلاف مراد لی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ مرزائیوں کا ایمان قرآن واحادیث کے الفاظ پر مطلق نہیں رہا۔ بلکہ محض اپنے مفید مطلب اشارات نکال کر صریح الفاظ سے ارتداد کرتے ہیں۔ ختم نبوت پر ایمان نہیں۔ ’’لا نبی بعدی‘‘ پر ایمان نہیں۔ ’’الحمدﷲ‘‘ پر ایمان نہیں۔ فطرت اﷲ پر ایمان نہیں۔ نزول مسیح پر ایمان نہیں۔ منارہ دمشق پر ایمان نہیں۔ ’’من اٰمن باﷲ والیوم الاٰخر‘‘ پر ایمان نہیں۔ ’’لم یلد ولم یولد‘‘ پر ایمان نہیں۔ خداوند عالم کے بعد ’’صمد۰ لیس کمثلہ شیٔ‘‘ ہونے پر ایمان نہیں۔ ’’انک لا تہدی من احببت‘‘ پر ایمان نہیں۔ ’’لا تجزی نفس عن نفس شیئاً‘‘ پر ایمان نہیں۔ ’’لا تزر وازرۃ وزر اخریٰ‘‘ پر ایمان نہیں۔ حرمت تصویر پر ایمان نہیں۔ ’’واعتصموا بحبل اﷲ جیمعاً‘‘ پر ایمان نہیں۔ ’’من شذ فقد شذ فی النار‘‘ پر ایمان نہیں۔ ’’اوفوا بالعہد‘‘ پر ایمان نہیں۔ ’’لعنۃ اﷲ علی الکاذبین‘‘ پر ایمان نہیں۔ ’’ماکان لنبی ان یغل‘‘ پر ایمان نہیں۔ توحید وتقدیس باری تعالیٰ پر ایمان نہیں۔ نزول عیسیٰ ابن مریم پر ایمان نہیں۔ روپیہ کی ہوس دل میں اٹھی تو براہین کی قیمت پیشگی ملنے کے لئے بڑے زور وشور سے اشتہار دیا۔ یہاں تک کہ ایک جلد ہی اشتہار میں ختم کر دی اور لاکھوں اشتہار علیحدہ شائع کئے۔ جب کل روپیہ وصول ہوچکا تو اس کا نام تک نہیں لیا۔ نہ ایفائے عہد کا خیال ہوا۔ نہ ادائے امانت کا براہین کے بعد سراج منیر کے نام پر۔ پھر اس کے بعد مفت اشاعت