احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
بالکل منہ بند رکھنا ہوگا۔ جیسے صم بکم۔ یہ اس لئے کہ گفتگو مباحثہ کے رنگ میں نہ ہوجائے۔ اوّل صرف ایک پیش گوئی کی نسبت سوال کریں۔ تین گھنٹہ تک میں اس کا جواب دے سکتا ہوں اور ایک ایک گھنٹہ کے بعد آپ کو تنبیہ کیا جائے گا کہ اگر ابھی تسلی نہیں ہوئی تو اور لکھ کر پیش کرو۔ آپ کا کام نہیں ہوگا کہ اس کو سناویں۔ ہم خود پڑھ لیں گے… چاہئے کہ دو تین سطر سے زیادہ نہ ہو۔‘‘ اس طولانی خط کے جواب میں ابوالوفا نے حسب ذیل خط بھیجا۔ ’’الحمد ﷲ وسلام علیٰ عبادہ الذی اصطفٰے۰ اما بعد‘‘ از خاکسار ثناء اﷲ! بخدمت مرزا غلام احمد صاحب! آپ کا طولانی رقعہ مجھے پہنچا۔ مگر افسوس کہ جوکچھ تمام ملک کو گمان تھا وہی ظاہر ہوا۔ جناب والا جب کہ میں آپ کی حسب دعوت مندرجہ اعجاز احمدی ص۱۱،۳۳ حاضر ہوا ہوں اور صاف لفظوں میں رقعہ اولیٰ میں انہیں صفحوں کا حوالہ دے چکا ہوں۔ تو پھر اتنی طویل کلامی جو آپ نے کی ہے بجز ’’العادۃ طبیعۃ ثانیۃ‘‘ کے اور کیا معنی رکھتی ہے۔ جناب من کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آپ اعجاز احمدی کے صفحات مذکورہ پر تو اس نیازمند کو تحقیق کے لئے بلاتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ میں (خاکسار) آپ کی پیش گوئیوں کو جھوٹی ثابت کروں تو نے پیش گوئی مبلغ ایک سو روپیہ انعام لوں اور اس رقعہ میں آپ مجھ کو ایک دو سطر میں لکھنے کے پابند کرتے ہیں اور اپنے لئے تین گھنٹہ تجویز کرتے ہیں۔ ’’ہذا قسمۃ ضیزیٰ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ ۱۱؍جنوری ۱۹۰۳ء اس کا جواب مرزاقادیانی نے خود کچھ نہیں دیا۔ بلکہ مولوی محمد احسن سے ایک پرچہ لکھوادیا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے۔ آپ کی اصلاح جو بطرز شان مناظرہ آپ نے لکھی ہے وہ ہرگز منظور نہیں۔ ۱۰… بعض پیش گوئیاں محض غلط ثابت ہوئیں۔ مثلاً ’’کلب یموت علیٰ الکلب‘‘ والی، ’’لک الخطاب العزت‘‘ والی، قیصر ہند کی شکریہ والی، گرامیدے وہم مدار عجب والی۔ ۱۱… شیخ مہر علی کی ذلت وعذاب والی جس کا اشتہار مورخہ ۸؍فروری ۱۸۹۳ء کو دیا گیا۔ ۱۲… سید امیر شاہ رسالدار میجر سردار بہادر کے فرزند ہونے کی نسبت جن سے پانچ سو روپیہ پیشگی لے کر ایک سال دعا کرنے کا وعدہ کیا تھا اور جس کی تاریخ ۱۵؍اگست ۱۸۸۸ء سے ۱۵؍اگست ۱۸۸۹ء تک تھی۔ ان کے نام دعویٰ سے لکھا تھا کہ اگر آپ کی نسبت کوئی کھلی کھلی بشارت نہ ملی یا اس بشارت کے موافق نتیجہ ظہور میں نہ آیا تو پھر میری نسبت اپ جس طور کا بداعتقاد چاہیں اختیار کریں۔ مگر اس تمام دعویٰ کا نتیجہ کچھ بھی نہیں ہوا۔