احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
حضور نے فرمایا کہ بجلی گر گئی تھی جس کی وجہ سے میعاد بڑھ سکتی ہے۔ مشتاق صاحب نے کہا کہ حضور پانی کی وجہ سے سب راستے بند ہوگئے تھے۔ بنیاد کے کام میں چونا روڑی میں ملایا جانا ضروری تھا۔ جو کہ باہر سے لایا جاتا تھا۔ چنیوٹ میں بھی نایاب تھا۔ اس لئے کام میں روک واقع ہوگئی۔ حضور نے فرمایا کہ نہیں ان کی نیت کام کو ختم کرنے کی نہیں ہے۔ مشتاق صاحب نے کہا کہ حضور جب بھی راستے قابل گذر ہوئے ہیں۔ انہوں نے چونے کی گاڑی لالیاں سٹیشن پر اتروا لی ہے اور بذریعہ ٹرک سپلائی کرائی ہے۔ اب تک روڑی وچنائی پتھر کا کام ہوچکا ہے۔ مزید کام جاری ہے اور سرگودھا میں لکڑی کا کام ہورہا ہے۔ اصل میعاد مطابق معاہدہ اگر نہ بھی بڑھائی جاوے تو ۱۶؍جنوری ۱۹۵۱ء ہے اور اب ۶؍اکتوبر ۱۹۵۰ء ہے۔ حضور نے فرمایا کہ جلسہ کی ضرورت کے ماتحت ہم کو یہ کوارٹرز ۲۰؍دسمبر ۱۹۵۰ء کو مکمل چاہئیں۔ معاہدہ کرنے والے افسروں نے غلطی کی ہے جو یہ میعاد رکھی ہے۔ اگر یہ جلسہ تک کام ختم نہ کریں گے تو بعد میں ہم ان کو کام کرنے ہی نہ دیں گے اور لیبر کو ان کے ہاں کام کرنے سے روک دیں گے اور پھر یہ اصل میعاد تک کام کو کیسے ختم کر سکیں گے۔ کچھ وقفہ کے بعد مشتاق صاحب مایوس ہوکر بولے کہ حضور معاہدہ کے قانون کے مطابق قبل از میعاد دعویٰ نہیں ہوسکتا۔ حضور نے فرمایا کہ قانون ہم بتائیں گے۔ آپ دعویٰ کریں۔ مشتاق صاحب نے دریافت کیا کہ حضور نواب محمد احمد صاحب جو کام چھوڑ ہی گئے۔ حضور نے فرمایا کہ ہاں ان پر دعویٰ کرنا ہی پڑے گا۔ چنانچہ ۸؍اکتوبر ۱۹۵۰ء کو جماعت احمدیہ کی خود ساختہ عدالت میں مجھ پر دعویٰ ہوگیا۔ پورے تین دن تک مقدمہ کی کارروائی ہوتی رہی۔ صبح چائے سے لے کر نماز ظہر تک اور نماز عصر سے لے کر نماز عشاء تک مقدمہ کی سماعت فاضل جج نے کی۔ مدعی کی طرف سے تین احمدی وکیل عدالت عالیہ احمدیہ میں ساتھ پیش ہوتے رہے اور میں غریب اکیلا بغیر کسی جرم کے قید محض میں رہا۔ مدعی کے وکیلوں نے وہ جھوٹ بولے کہ کوئی بڑے سے بڑا مفتری اور کاذب آدمی دیدہ دلیری کے ساتھ شاید قتل کے مقدمہ میں جھوٹ بول سکتا