احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
آپ کے الہامات اسی رنگ کے ہوتے ہیں۔ ’’واﷲ یحمدک من السماء‘‘ اﷲ تیری آسمانوں میں حمد کرتا ہے تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں۔ تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری اولاد۔ اے شمس اے قمر، قرآنی وحی میں کہیں یہ رنگ نہیں ہے۔ بلکہ ولد کے لفظ پر یہاں تک غضب ظاہر فرمایا ہے: ’’تکاد السمٰوٰت یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخر الجبال ہداً ان دعوا اللرحمن ولداً‘‘ تمام قرآن میں کہیں محمدﷺ کی تحمید نہیں۔ کہیں محمدؐ کی نسبت ایسے الفاظ نہیں۔ بلکہ جابجا خداوند عالم کی ہی تحمید اور تقدیس ہے اور خلق خدا کے لئے وعظ ونصیحت ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ مجھ پر ایمان لانے کے بغیر نجات نہیں۔ مگر محمدﷺ فرماتے ہیں۔ ’’من قال لا الہ الا اﷲ دخل الجنۃ ولو سرق وزنی‘‘ آپ کا دارومدار پیش گوئیوں پر ہے۔ مگر محمدﷺ ہر وقت اصلاح ایمان اعمال واخلاق کی طرف مشغول تھے۔ آپ کے الہام میں ہے۔ ’’رب سلطنی علی النار‘‘ اے میرے رب مجھے آگ پر اختیار دے۔ قرآن مجید فرماتا ہے۔ اﷲ مالک یوم الدین ہے۔ ’’لمن الملک الیوم ﷲ الواحد القہار من ذالذی یشفع عندہ الّا باذنہ‘‘ آپ کے الہام میں آپ کی نسبت ہے۔ ’’یاشمس یا قمر‘‘ کیا سورج کی طرح آپ کے وجود پر ہمیشہ سے کسی عالم کا نظام قائم ہے۔ جیسا کہ نظام شمسی پر زمین اور سیاروں کا ہے۔ کیا سورج کی طرح ہمیشہ آپ کا نور یکساں طور پر کل عالم دنیا کو پہنچ رہا ہے۔ کیا شمس کی طرح ایک سیکنڈ کے لئے بھی آپ آرام نہیں کرتے۔ جیسا کہ سورج کے طفیل ہوائیں چلتی، بادل آتے، بجلیاں لسکتی، تمام دنیا کے کھیت اور باغات پرورش پاتے اور پکتے اورتمام دنیا کے کام چلتے ہیں۔ کیسا ویسا ہی آپ کے طفیل تمام عالم کو ہمیشہ سے اور ہر وقت روحانی رزق ملتا ہے۔ روحانی پرورش ہوتی ہے اور تمام دنیا کا دارومدار آپ کے ہی نور پر ہے۔ ہرگز نہیں بلکہ آپ کے نور نے ایک قادیان کو کیا اپنی جماعت اور اپنے کنبہ کو بھی منور نہیں کیا۔ قرآنی وحی میں سید المرسلین کا نام محض سراج منیر یعنی روشن چراغ ہے نہ کہ شمس قمر، قرآنی وحی میں الحمدﷲ ہے۔ آپ کی وحی میں ’’اﷲ یحمدک من السماء‘‘ ہے۔ حمد کا لفظ محمد اور محمود میں بصیغہ مفعول ضرور آیا ہے۔ جسمیں اصلی معنوں سے کبھی تنزل ہوجایا کرتا ہے۔ مگر آنحضرتﷺ کی نسبت کہیں نہیں۔ ’’اﷲ یحمدک من السماء یا محمد‘‘ سوم… بہشتی مقبرہ کی بنیاد: اس سے اوّل تو قرآن مجید کے مفصل اور کامل ہونے کا دعویٰ باطل ہوتا ہے۔ کیونکہ اس نے ایسے ضروری مسئلہ پر جو باعث نجات ہوسکتا ہے کوئی ارشاد نہیں فرمایا۔ دوم: ان تمام احادیث صحیحہ کی تردید ہوتی ہے جن میں ارشاد ہے کہ قبریں اونچی نہ کی جائیں نہ ان پر