احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
مرزاقادیانی کی طرف سے اصلاح اور توبہ کی کوئی امید نہیں رہی۔ اس لئے جس قدر تفاسیر میرے پاس تھیں ان میں سے وہ مضامین نکال دئیے ہیں اور ان کی بجائے حاشیہ لگادیا ہے اور تمام خریداران تفاسیر کے نام بھی یہ اوراق بھیج دئیے ہیں تاکہ وہ اپنی تفاسیر میں سے اوراق از صفحہ ۲۴۹تاص۲۹۰ نکال کر یہ اوراق چسپاں کر لیں۔ جن بناؤں میں عقیدہ مسیحیت ومہدویت ومجددیت مرزا سے تائب ہوا ہوں وہ مختصراً حسب ذیل ہیں: اوّل… تمام مسلمانوں کو جو مرزاقادیانی کو نہ مانیں خارج از اسلام اور جہنمی قرار دینا اور ان کے ساتھ تعلق رکھنے کو حرام بتلانا۔ چنانچہ (تحفہ گولڑویہ ص۲۸ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۴۱۶) پر لکھتے ہیں: ’’یاد رکھو کہ جیسا خدا نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام کہ کسی کفر اور مکذب یا متردد کے پیچھے نماز پڑھو۔‘‘ پھر الحکم مورخہ ۲۴؍مئی ۱۹۰۵ء میں شائع کیا کہ: ’’وہ شخص میری جماعت سے خارج ہے جو احمدی ہوکر بھی اپنے رشتہ ناطے غیراحمدیوں سے کرے۔‘‘ موجودہ خط وکتابت میں تو مکفر یا مکذب یا مترددکی شرط بھی اڑا دی۔ بلکہ باربار یہی لکھتے رہے کہ: ’’تیرہ کروڑ مسلمان جو مجھ کو نہیں مانتے سب کے سب جہنمی اور خارج از اسلام ہیں۔ خواہ ان پر تبلیغ ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔‘‘ میں نے جب لکھا کہ امت محمدیہ میں جو لوگ ہماری تکذیب نہیں کرتے اور ہمیں صریحاً کافر نہیں کہتے ان تمام کو کافر نہ سمجھا جاوے۔ بلکہ حسن ظنی سے کام لیا جائے اور ان کے ساتھ نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ میری اس تحریر پر ایسے طیش میں آئے کہ: ’’مجھے مرتد قرار دیا‘‘ اور حواس باختہ ہوکر میرے خطوں کا جواب کچھ سے کچھ دیتے رہے۔ یہ ایک مسئلہ کہ مرزاقادیانی کے ماننے پر نجات منحصر ہے۔ ایسا خبیث اور باطل ہے کہ اس سے ساری خدائی باطل ٹھہرتی ہے۔ اوّل تو یہ ربوبیت باری تعالیٰ کے خلاف ہے۔ کیونکہ جس قدر کسی شیٔ کی زیادہ ضرورت ہے۔ اسی قدر رب العالمین نے وہ چیز زیادہ عام کی ہے۔ مثلاً ہوا اور پانی پس اگر مرزاقادیانی کے ماننے پر نجات کا انحصار ہوتا تو رب العالمین اپنی قدرت سے اس کا ایسا انتظام کرتا کہ ہر ایک شخص کی فطرت میں جیسا کہ اس کی ربوبیت منقوش ہے۔ ویسا ہی مرزاغلام احمد مسیح بھی منقوش ہو جاتا۔ بلکہ زمین وآسمان میں گنجار پڑ جاتی کہ نجات کا مدار غلام احمد کے ماننے پر ہے۔ اس پر ایمان لانے کے بغیر توحید، عبادت اور اعمال سب باطل ہیں۔ دوم… ایسا ایمان رحمانیت کے منافی ہے۔ کیونکہ الرحمن نے ہر حیوان کو اس کے مطابق حال اعضائے اور علوم دئیے ہیں۔ مثلاً ہر حیوان فطرتی طور پر اپنی غذا، اپنے طریق بودوباش اور اپنے