احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
۔ خدا کا رحم اور فضل ان مجرموں میں سے بعض کو بچانے کے لئے مرسل مقرر فرماتا ہے۔ کیا نوح اور موسیٰ کے آئے بغیر فرعون اور قوم نوح ہلاک ہوگئی تھی۔ ۱۱… کیامکہ والوں کا یہ کہنا کہ: ’’ماکان اﷲ لیعذبہم وانت فیہم‘‘ کوئی مجنون کی بڑ ہے۔ ۱۲… سورۂ نوح کا ابتداء پڑھو جہاں لکھا ہوا ہے: ’’فاتقواﷲ واطیعون‘‘ اگر وہ کوئی مدار نجات نہ تھا تو اس کی اطاعت چیز ہی کیا تھی۔ پھر آپ نے ایمان بالآخر کو نجات کامدارتجویز قرار دیا اور یہ خیال نہ کیا کہ آپ کا دائرہ نجات تنگ ہوا جاتا ہے۔ سنئے قرآن شریف نے ایمان بالآخر کے لوازمات بیان کئے ہیں اور ان لوازمات نے مدار نجات کو اور بھی تنگ کر دیا ہے اور وہ آیت یہ ہے۔ ۱۳… ’’والذین یؤمنون بالاٰخرۃ یؤمنون بہ وہم علیٰ صلوٰتہم یحافظون‘‘ یہاں ایمان بالآخرۃ کو ملزوم ٹھہرایا ہے اور ایمان بالقرآن اور محافظت علیٰ الصلوٰۃ کولازم قرار دیا ہے اور یہ تو ان کی فطرت کہتی ہوگی کہ لازم وملزوم جدا نہیں ہوتے ہوں گے۔ ۱۴… آپ نے قتل عمدکی سزا کہیں قرآن میں دیکھی ہوگی۔ اگر یاد نہ ہو تو میں اسی خط میں یاد دلاتا ہوں۔ ’’ومن یقتل مؤمناً متعمداً فجزائہ جہنم خالداً فیہا ولعنۃ واعدلہ عذاباً الیما‘‘ ۱۵… پھر ایک اور آیت ہے جو چھٹے پارہ کی ابتداء میں ہے۔ وہ یہ ہے: ’’ان الذین یکفرون باﷲ ورسولہ ویریدون ان یفرقوا بین اﷲ ورسلہ ویقولون نؤمن ببعض ونکفر ببعض ویریدون ان یتخذوا بین ذالک سبیلاً اولئک ہم الکافرون حقاً واعتدنا للکفرین عذاباً مہینا‘‘ آپ ابھی تو میرے روحانی فرزند ہیں اور مسیح کو مسیح اور مہدی بھی مانتے ہیں۔ اگر ’’ابیٰ واستبکر‘‘ کا کوئی مادہ اﷲتعالیٰ کے فضل سے آپ میں ہو تو جو قاعدہ نجات کا آپ نے لکھا ہے اسی غلطی سے میرے بیان سے بھی ظاہر ہوسکتی ہے اور یہ اگر نجات کے اسباب بہت ہیں اور اب آپ مخالفت کا اظہار کر چکے ہیں اور ’’لا ترکنوا الی الذین ظلموا‘‘ کی بھی پرواہ نہیں کی تو زیادہ مباحثات سے بھی کام نہیں نکلتا۔ نجات فضل سے ہے اور اس فضل کا جاذب تقویٰ ہے اور اس تقویٰ کا مختصر بیان آیت: ’’لیس البران تولوا وجوہکم‘‘ میں ہے۔ آپ اس پر غور کریں۔ کیونکہ تقویٰ سے نجات کا ہونا تو آیت کریمہ: ’’وینجی اﷲ الذین اتقو‘‘ اور ’’ثم ننجی الذین اتقوا‘‘ سے ظاہر ہے اور اس یقین کے بعد کہ نجات تقویٰ سے ہے اور تقویٰ ان امور کی پابندی کا نام ہے تو آپ کا وہ قاعدہ ٹوٹ جاتا