احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
وزیر چنیں شہریار چناں جہاں چوں نگر و قرار چناں قرآن مجید سے صریح اعراض وانحراف کی حالت میں کہاں تک حسن ظنی کی جائے؟ ۲… مخدوم بندہ۔ خدا گواہ ہے کہ میں طالب حق ہوں جو بات قرآن کریم کے موافق ہوتی ہے اس کو میں ہر وقت قبول کرنے کے لئے مستعد ہوں۔ خواہ وہ بات کسی مریض کے منہ سے نکلے یا تندرست کے منہ سے۔ کسی عالم فاضل کے منہ سے نکلے یا کسی امی وجاہل کے منہ سے۔ اسی امید وبناء پر میں نے مرزاقادیانی سے بیعت کی تھی۔ مگر افسوس کہ عرصہ بیس سال میں نہ تو ان کے کلام میں وتحریر میں کوئی ایسی معارف سننے یا پڑھنے سے جو مجھ کو علیحدہ طور پر معلوم نہ ہوئی ہوں۔ کہ ان کی صحبت میں ہی کوئی خاص اثر دیکھا۔ ہاں علم قرآن اور اثر صحبت کی نسبت ان کے خالی دعویٰ ضرور باربار شائع ہوتے رہے۔ جن ایام میں مرزاقادیانی کو میں تفسیر القرآن سنایا کرتاتھا۔ آپ کو بھی یاد ہوگا کہ تمام تفسیرمیں مرزاقادیانی نے کسی ایک مقام پر بھی نہ تو کوئی اصلاح کی نہ کوئی خاص نکتہ معرفت بتایا۔ آپ نے بیشک بعض غلطیاں بھی درست کیں اور بعض نئے نکات بھی بتلائے۔ آپ کی عدم موجودگی میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی نسبت بحث شروع ہوئی تو مرزاقادیانی اس کو صاف نہ کر سکے۔ بلکہ فرمایا کہ اچھا ہم تفسیر کبیر میں دیکھ کر پھر بتلائیں گے۔ نہ معلوم ان کی تفسیر کتاب عزیز کہاں گئی۔ جس کا اشتہار دے چکے تھے۔ یہ امر ظاہر بھی ہے کہ اگر میری تفسیر کا مقابلہ مرزاقادیانی کی کتابوں سے کیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ کوئی مقام بھی مرزاقادیانی کی کسی کتاب سے اخذ کردہ نہیں ہے تو میری تفسیر کو سن کر بس تعریف ہی تعریف کرتے رہے کہ نکات قرآنی خوب بیان کئے ہیں۔ ’’نہایت عمدہ ہے۔ شیریں بیان ہے۔ دل سے نکلے اور دلوں پر اثر کرنے والی ہے۔ فصیح وبلیغ ہے۔ بعض مقامات کی نسبت فرمایا حد ہی کر دی۔‘‘ وغیرہ وغیرہ! چنانچہ ان کی اجازت سے یہ الفاظ الحکم اور البدر میں شائع بھی ہوتے ہیں۔ مگر اب تو آپ نے میری تفسیر پاس رکھنے کے بھی قابل نہ سمجھی اور واپس کر دی۔ (قادیانی مفتی) محمد صادق نے تو حد ہی کر دی کہ جس قدر تفاسیر ان کے پاس جمع تھیں ان کو ایسی بیہودہ طور پر ایک بوری میں بھر کر واپس کیا کہ وہ راستہ میں شکستہ اور دریدہ ہوکر تودہ اوراق ہوگئیں۔ افسوس کہ مجھ سے تو ضد وعناد ہوا مگر قرآن مجید کا بھی کچھ پاس ادب نہ کیا اور نہ دیانت وامانت کا لحاظ کیا اور تودۂ اوراق ان کے ملاحظہ کے لئے علیحدہ رکھا ہوا ہے۔ حکیم فضل الدین نے جو کتابیں واپس کیں وہ اچھی حالت میں پہنچ گئیں۔ ’’جزاک اﷲ خیر الجزا‘‘ اثر صحبت کی نسبت ہمیشہ اشتہار شائع ہوتے ہیں۔ اس کے نام پر سینکڑوں روپیہ ماہوار وصول ہوتا ہے اور بنام لنگر خرچ ہوتا ہے۔ مگر میں نے کوئی اثر نہیں دیکھا۔