احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
اگر حسن عقیدت سے کام لیا جائے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس قسم کے مشرکانہ الہامات یا تو کثرت مشک وعنبر وسڑکنیا ودیگر محرکات ومفرحات کا نتیجہ ہیں جو آپ ہمیشہ بکثرت استعمال کرتے رہتے ہیں یا مرض ہسٹریا کا نتیجہ ہیں۔ جس میں آپ مدت سے مبتلا ہیں۔ کیونکہ ذاتی مشیخت اور کبریائی کے خیالات پیدا ہونا اور اپنی وسعت وطاقت سے بڑھ کر کاموں اور محال وغیرممکن امور کے لئے حوصلہ اور ارادہ ہونا۔ ہسٹریا کی علامات میں سے ہیں یا کچھ عرصہ کے لئے شیطان آپ پر مسلط ہوگیا ہے۔ کیونکہ ہر الہام جو قران کے مخالف ہو شیطانی ہے اور قرآنی ارشاد ہے۔ ’’ومن یعش عن ذکر الرحمن نقیض لہ شیطان فہو لہ قرین‘‘ باقی کمزوریاں بہ تقاضائے بشریت ہیں اور اگر عام طور پر دیکھا جائے تو اس قسم کے عقائد، اعمال اور الہامات پرلے درجہ کے دجل اور فریب پر دلالت کرتے ہیں۔ کیونکہ کسی نبی نے موجودہ فسادات کی اصلاح سے اعراض نہیں کیا۔ ہاں نفس پرست اور دنیا پرست ہمیشہ ایسا کیا کرتے ہیں۔ کسی نبی نے خدائی کا دعویٰ نہیں کیا۔ ہاں دجال کی نسبت ایسا ضرور مذکور ہے۔کسی نے ایسا ظاہر نہیں کیا کہ بہشت دوزخ میری مرضی پر منحصر ہے۔ ہاں دجال کی نسبت ضرور مذکور ہے کہ اس کے ایک ہاتھ پر بہشت اور ایک ہاتھ پر دوزخ ہوگا۔ کسی نبی نے محض اسی بات پر زور نہیں دیا کہ میں مدار نجات ہوں اور خداوند عالم، اسلام، فطرت اور اعمال ہیچ ہیں۔ ہاں دجال کی نسبت ضرور مذکور ہے کہ وہ کانا ہوگا اور اس کا کفر صریح ہوگا۔ کسی نبی نے اپنی نسبت یہ نہیں کہا اگر میں نہ ہوتا تو آسمان ہی نہ ہوتے۔ بلکہ قرآن مجید نے اس کے خلاف یہ فرمایا ہے: ’’خلق السمٰوٰت اکبرمن خلق الناس‘‘ خلقت انسان کی نسبت آسمانوں کی خلقت اعظم ہے۔ کسی نبی نے لنگر کے نام پر روپیہ جمع کر کے نہ آپ بیٹھے بٹھائے مزے سے کھایا نہ اوروں کو کھلایا۔ بلکہ ان کی نسبت قرآن مجید میں باربار یہی ذکر ہے۔ ’’لا اسئلکم علیہ من اجر‘‘ میں تم سے اس کام کی کوئی مزدوری نہیں مانگتا۔ بلکہ قرآن مجید نے اس بات کو ان کی صداقت کی ثبوت میں پیش کیا کہ جو تم سے وعظ کی بابت کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ اس کی بات مانو۔ ہاں دجال کی نسبت ضرور مذکور ہے کہ اس کی ساتھ روٹیوں کا پہاڑ ہوگا۔ اب رہا بعض بعض پیشین گوئیوں کا پورا ہونا تو اس کی بابت خود لکھ چکے ہیں کہ سچی خوابات اورالہامات مشرکوں کو بھی ہوا کرتے ہیں۔ آپ نے جب دیکھا کہ موت قریب ہے اور دنیا سے گزر جانے کے بعد کوئی کام یا تصنیف ایسی نظر نہ آئی۔ جس پر آپ عیال واطفال کا گزر ہوسکے یا آپ کے لئے پائدار عزت کا موجب ہو سکے اور قرآن کریم کے مقابلہ میں ٹھہر سکے۔ کیونکہ دنیامیں وہی شے پائیدار ہوسکتی ہے جو نافع خلق ہو۔ ’’امّا ما ینفع لناس فیمکث فی الارض‘‘ پر یہ خوب