احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
نقص ان میں ظاہر ہوتے ہیں میں اس وقت بھی دیکھتا تھا اور اب بھی دیکھ رہا ہوں۔ مثلاً براہین احمدیہ میں منن الرحمن اور اربعین کا باوجود اشتہارات دینے کے آج تک مکمل نہ ہونا۔ منارہ کا نامکمل رہنا جماعت کی عملی اصلاح کی طرف توجہ نہ ہونا۔ سارا زور حیات وممات مسیح کے مسئلہ پر خرچ کرنا۔ قرآنی تعلیمات پر کلی طور پر علے التناسب توجہ نہ ہونا۔ تبلیغ کی عرض سے اور شہروں میں نہ جانا۔ دہلی کا سفر اگر کیا تو محض بیوی صاحبہ کی خاطر۔ لنگر کے نام پر روپیہ جمع کرنا۔ آپ بے فکری سے کھانا اور دوسروں کو کھلانا اور اس کو درد اور کفایت کے ساتھ خرچ نہ کرنا نہ اس کا کوئی حساب کتاب رکھنا۔ احمدی جماعت میں داخل ہوکر سوائے ایک وفات وآمد مسیح کی عملی اصلاح اور تزکیہ نفس کی طرف کوئی خیال نہ ہونا۔ جو لوگ پہلے سے جس حال میں ہیں اس میں کوئی نمایاں ترقی نہ ہونا۔ اب جب میں نے دیکھا کہ احمدیوں میں مرزا پرستی کا موتو مانیا اس انتہاء کو پہنچ گیا کہ سوائے اس کے اور سب اذکار برائے نام رہ گئے اور شرک تک نوبت پہنچ گئی۔ انبیاء علیہم السلام کی توہین ہونے لگی۔ تب مجھ کو مرزاقادیانی کے واقعی نقص اور کمزوریاں گنانی پڑیں۔ نہ اس نیت سے کہ ان کی توہین ہو۔ بلکہ اس نیت سے کہ ان کو خدایا شریک خدانہ ٹھہرایا جائے۔ جیسا کہ خود مرزاقادیانی مسیح اور حسین علیہم السلام کی کمزوریاں گناتے رہے ہیں۔ وہی نیت میری ہے۔ اگر ان کمزوریوں میں کوئی خلاف واقعہ امر میں نے گنایا ہو تو مجھے بتلایا جائے میں اسے واپس لے لوں گا اور تائب ہو جاؤں گا۔ مگر افسوس تو یہ ہے کہ میں تو آپ کی طرف آتا ہوں اور آپ مجھ کو دور سے دھکے دے رہے ہیں۔ میرا یہ مرض کچھ اور ہے اور دوا کچھ اور زبردستی میرے حلق میں تھونی جارہی ہے۔ پھر اعلان بھی شائع کر دیا اور کتابیں واپس ہورہی ہیں اور اس کا نام رکھا جاتا ہے۔ ’’انما اشکو بثی وحزنی الی اﷲ تعالیٰ‘‘ کیا اس کے یہی معنی ہیں کہ برسر بازار شور مچایا جائے۔ میراکوئی خط شائع نہیں کیا۔ میرے مقاصد کچھ تھے۔ مگر غیظ وغضب کی حالت میں کچھ سے کچھ سمجھ کر کوسنے پر آپڑے اور میری تباہی کے منتظر ہوگئے۔ مگر میں یقینا جانتا ہوں کہ میرا خدا ایسا مغلوب الغضب اور بدفہم نہیں ہے کہ ایک شخص جو قرآنی رو سے ایک امر کا فیصلہ چاہتا ہے اس کو کافر اور مرتد کہا جائے۔ جو آیات قرآنی میں اپنے استدلال میں پیش کرتا ہوں نہ ان کے دوسرے طور پر معنے کر کے دکھائے جاتے ہیں نہ کوئی اور معقول جواب ملتا ہے۔ بلکہ شروع سے ہی خارج از اسلام، مرتد، دشمن کذاب مفتری نام سے پکارا جاتا ہے جو امر مجھ کو صریحاً قرآن کریم کے خلاف معلوم ہوں تو میں ان کو کیسے مان سکتا ہوں جو تجاویز اصلاح اور استحکام جماعت کے واسطے میں نے پیش کی ان کو ارتداد شمار کیا جاتا ہے۔ میں یقینا جانتا ہوں کہ مسیح کا خلاف نہایت ہی خطرناک امر ہے۔ مگر قرآن کریم کا