احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
مثال کافی ہے کہ آپ کے الہامات میں نہایت ہی بعید استعارات ہیں۔ ان پر شرعی مسائل قابل کرنا غلطی ہے۔ قرآنی وحی میں سید المرسلین کا نام محض سراج منیر یعنی چراغ روشن ہے نہ کہ شمس وقمر، قرآنی وحی میں الحمدﷲ ہے۔ آپ کی وحی میں ہے: ’’اﷲ یحمدک من السماء‘‘ حمد کا لفظ محمد اور محمود میں بصیغہ مفعول ضرور آیا ہے جس میں اصلی معنوں سے کبھی تنزل ہوجایا کرتا ہے۔ مگر آنحضرتﷺ کی نسبت کہیں نہیں۔ ’’اﷲ یحمدک من السماء یا محمد‘‘ آپ کی وحی میں یہی ہوتا ہے۔ ’’زلزلۃ الساعۃ‘‘ اور بعد میں آپ کی طرف سے حاشیہ چڑھائے جاتے ہیں کہ میری تکذیب کی وجہ سے زلزلہ آیا ہے۔ خواہ وہ کولمبیا میں آیا ہو یا اٹلی میں یا فرانس کو میں یا جزیرۂ فارموسا میں جہاں… آپ کی تبلیغ نہیں ہوئی ہے۔ جہاں آپ کا کوئی باقاعدہ مشن نہیں پہنچا۔ اگر تکذیب کا ہی نتیجہ طاعون اور زلزلہ ہوں تو پہلے آپ کے سخت مخالفین۔ مثلاً پیسہ اخبار، مولوی ثناء اﷲ مولوی محمد حسین، گروہ پشاوریان۔ سب سے پہلے مخالفین قادیان جن پر تبلیغ کما حقہ ہوچکی مبتلاہوں۔ جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ پر قوم فرعون غرق ہوئی۔ نوح علیہ السلام کی مخالفت سے انہیں کے مقام سے طوفان شروع ہوا۔ قوم لوط، قوم ہود، قوم صالح وغیر ہلاک ہوئے۔ خاتم النّبیینﷺ کے مقابلہ پر مشرکین اور مخالفین عرب کا خاتمہ ہوا۔ مگر ان زلزلوں اور آتش فشانیوں کی نسبت قرآنی وحی میں کیسا صاف درج ہے۔ ’’تکاد السمٰوٰت یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخر الجبار ہدّاً ان دعوا للرحمن ولداً‘‘ افسوس آپ نے اور آپ کے مریدوں نے ان زلزلوں کی بناء یہ پیش کی بلکہ خدا اور رسول اور قرآن کو پس پشت ڈال کر آپ کو ہی آگے کر لیا۔ ’’ان ہذا لظلم عظیم۰ فتدبروا واعملو ان علیٰ کل ذی علمٍ علیم‘‘ کیا آپ کی خاطر میں خداوند عالم کو چھوڑ دوں۔ اس کے کلام پاک سے انکاری ہو جاؤں۔ آپ ذرا غور فرماویں۔ آپ نے ان آیات کا کیا جواب دیا جو اپنے خیالات کی تائید میں نے سیدھے طریق پر پیش کیں اور آپ نے اس مسئلہ پر کوئی دلیل پیش نہ کی کہ آپ پر ایمان لانے کے بغیر کوئی نجات نہیں پاسکتا۔ کیا خداوند عالم کی ربوبیت ورحمانیت ورحمیت منسوخ ہوچکی اور اس کا مالک یوم الدین ہونا باطل ہوچکا اور اس کی رحمت واسعہ جس کی تعریف ’’وسعت رحمتی کل شیٔ‘‘ ہے، منسوخ ہوچکی اور غضب میں متبدل ہوگئی اور اب جنت وجہنم کا کلی اختیار آپ کو مل گیا۔ کیا توحید کے تمام اصول آج غلط ٹھہر گئے۔ قرآن مجید تو خاتم النّبیین کی نسبت فرماتا ہے: ’’انّک لا تہدی من اجبت‘‘ اور محمدﷺ کو فرماتا ہے۔ اگر تو ستر بار بھی مشرک کی بابت مغفرت مانگے گا میں ہرگز نہ بخشوں گا۔ مگر آج یہ ہوگیا کہ جس سے تو راضی اس سے خداراضی اور جس سے تو ناخوش